ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

نریندر مودی کے ارونا چل پردیش کے دورے پر چین کا احتجاج، چین نے بھارت کو سخت پیغام دے دیا

datetime 16  فروری‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

بیجنگ (مانیٹرنگ ڈیسک)چین نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے اروناچل پردیش کے دورے پر سخت احتجاج کیا ہے۔ چین کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ انڈیا ایسے اقدامات سے گریز کرے جن سے دونوں ملکوں کے سرحدی تنازعات مزید پیچیدہ ہوں۔ وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ وہ اس دورے کے خلاف انڈیا سے سفارتی سطح پر احتجاج کرے گا۔ انڈیا نے شمال مشرقی خطے میں واقع ارونا چل پردیش کو اسّی کے عشرے میں انڈیا میں ایک ریاست کے طور پر ضم کر لیا تھا۔

چین کا کہنا ہے کہ یہ خطہ چین کا ہے جس پر انڈیا نے ناجائز طریقے سے قبضہ کر لیا ہے۔بی بی سی کے مطابق وزیر اعظم نریندر مودی جمعرات کو ارونا چل پردیش کے دورے پر تھے۔ ان کے دروے سے قبل انڈیا کی وزارت خارجہ نے کہا تھا کہ ارونا چل پردیش انڈیا کا اٹوٹ حصہ ہے اور انڈین رہنماؤں کا ریاست کا دورہ کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان گینگ شوانگ نے بیجنگ میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘چین کی حکومت نے نام نہاد ارونا چل پردیش کو کبھی تسلیم نہیں کیا ہے۔ ہم انڈین رہنماؤں کے اس متنازع خطے کے دورے کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں’۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان گینک نے کہا کہ چین اور انڈیا نے اپنے تنازعات کوحل کرنے کے طریقہ کار سے اتفاق کیا ہے اور دونوں ممالک بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے اپنے سرحدی تنازعے حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔انھوں نے کہا ‘چین انڈیا پر زور دے گا کہ وہ اپنے وعدے پر عمل کرے اور دونوں ملکوں کے درمیان طے پائے متققہ طریقہ کار پر عمل کا پابند رہے۔ ہمیں امید ہے کہ انڈیا ایسا کوئی قدم نہیں اٹھائے گا جس سے سرحدی تنازعات مزید پیچیدہ ہوں’۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اس سے پہلے فروری 2015 میں اروناچل پردیش کا دورہ کیا تھا۔ اس وقت بھی چین نے سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس طرح کے دورے سے سرحدی تنازعے کوحل کرنے میں مدد نہیں ملے گی۔انڈیا نے حال میں چین پر اپنا دباؤ بڑھانے کی کوشش کی ہے۔

گذشتہ برس ملک کی وزیر دفاع نرملا سیتا رمن اور تبت کے جلا وطن روحانی رہنما دلائی لامہ نے بھی ریاست کا دورہ کیا تھا۔ چین نے ان دوروں کو اشتعال انگیزقرار دیا تھا۔دونون ملکوں کے درمیان 3488 کلومیڑ لمبی سرجد پر کئی جگہ تنازعات ہیں۔ دونوں ممالک ان تنازعات کو حل کرنے کے لیے بیس مرتبہ مذاکرات کر چکے ہیں لیکن ابھی تک کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔ چند مہینے قبل انڈیا بھوٹان اور تبت کی سرحد پر ڈوکلام کے علاقے میں انڈیا اور چین کے فوجی ایک سڑک کی تعمیر کے سوال پر ایک دوسرے کے مقابل کھڑے تھے اور خطے میں زبردست کشیدگی پیدا ہوگئی تھی۔ بین الاقوامی ماہرین کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں انڈیا اور چین کے درمیان سرحدی کشیدگی مزید شدت اختیار کرے گی۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…