اسلام آباد(آن لائن) حکومت پاکستان بھارت میں اپنے ہائی کمیشن کے چار افسران کو وطن واپس بلانے پر غور کررہی ہے۔یہ اقدام چند روز قبل بھارت کی جانب سے نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن میں تعینات ایک افسر محمود اختر کو ناپسندیدہ شخص قرار دے کر ملک چھوڑنے کے حکم کے بعد اٹھایا جارہا ہے۔دفتر خارجہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ’یہ اقدام زیر غور ہے اور اس حوالے سے حتمی فیصلہ جلد کرلیا جائے گا‘۔بھارتی حکام کی جانب سے پاکستانی ہائی کمیشن کے اہلکار محمود اختر کا ریکارڈ شدہ بیان میڈیا کو جاری کیا گیا تھا جس میں انہوں نے پاکستانی ہائی کمیشن کے چار اہلکاروں ، کمرشل قونصلر سید فرخ حبیب، فرسٹ سیکریٹریز خادم حسین، مدثر چیمہ اور شاہد اقبال کے نام لیے تھے۔محمود اختر نے بتایا کہ انہوں نے بیان تشدد اور دباؤ میں آکر دیا۔گزشتہ ہفتے پاکستان واپس آنے والے محمود اختر نے بتایا کہ ’وہ مجھے پولیس اسٹیشن لے گئے جہاں مجھے ایک تحریری پرچہ پڑھنے پر مجبور کیا گیا جس میں چار پاکستانی اہلکاروں کے نام درج تھے اور انہوں نے زور دیا کہ میں یہ کہوں کہ یہ چاروں پاکستان کی انٹیلی جنس سروسز سے تعلق رکھتے ہیں‘۔محمود اختر نے بتایا کہ انہیں خواجہ نظام الدین کے مزار سے واپس آتے ہوئے چڑیا گھر کے باہر سے حراست میں لیا گیا اور نئی دہلی پولیس اسٹیشن لے جایا گیا۔انہوں نے بتایا کہ اس کے بعد انہیں ایک تحریری پرچہ پڑھ کر ریکارڈ کرانے پر مجبور کیا گیا اور پھر ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا گیا۔انہوں نے کہا کہ بھارتی حکام نے ان پر تشدد کیا اور دھمکی دی کہ اگر انہوں نے ان کی مرضی کا بیان نہیں دیا تو وہ دل کے دورے کا موجب بننے والا انجیکشن لگادیں گے۔واضح رہے کہ اس واقعے کے بعد بھارت میں پاکستانی ہائی کمیشن کے عملے اور ان کے اہل خانہ کی سیکیورٹی پر خدشات بڑھا دیے جبکہ ہائی کمیشن کی معمول کی کارروائیاں بھی متاثر ہوئی ہیں۔پاکستان اور بھارت پہلے بھی ایک دوسرے کے سفارتکاروں کو کشیدہ تعلقات کی وجہ سے ملک بدر کرچکے ہیں تاہم یہ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ بھارت نے پاکستانی سفارتکاروں کی شناخت جاری کرنے کا انتہائی قدم اٹھایا ہے۔پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ بھارت نے کشیدگی کو مزید بڑھانے کی غرض سے یہ اقدام کیا ہے۔ایک پاکستانی افسر نے بتایا کہ ’ہم اس اقدام کو سفارتی اقدار کی سنگین خلاف ورزی تصور کرتے ہیں، بھارتی اقدام سے پہلے سے کشیدہ تعلقات مزید خراب ہوگئے ہیں اور ہمارے سفارتی عملے کی زندگیوں کو بھی خطرات لاحق ہوگئے ہیں، یہ سوچا سمجھا اور اشتعال انگیز قدم ہے‘۔پاکستانی ہائی کمیشن کے عملے کو درپیش مشکلات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ عملے کے ایک رکن کے بیٹے کو اسکول چھوڑنا پڑا کیوں کہ پاکستانی سفارتکار کا بیٹا ہونے کی وجہ سے ساتھی طالب علموں کی جانب سے اس کا تمسخر اڑایا گیا۔انہوں نے کہا کہ پاکستانی ہائی کمیشن کے عملے کی طرف لوگوں کا رد عمل بھی سخت ہوگیا ہے۔پاکستانی ہائی کمیشن کے ایک اہلکار کے اہل خانہ نے قبل ازیں بات کرتے ہوئے حکومت پاکستان پر تنقید کی اور کہا کہ حکومت نے ان کی حفاظت کو درپیش خطرات کے حوالے سے مناسب اقدامات نہیں کیے۔انہوں نے کہا کہ ’یہ ہمارے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بنا ہوا ہے لیکن بھارت کے خلاف حکومت کا رد عمل انتہائی سست اور عاجزانہ ہے۔