کراچی (نیوزڈیسک) سال 2015ء متحدہ قومی موومنٹ کیلئے خراب سال ہے، جس کے دوران اس کو اندرونی و بیرونی مختلف قسم کے مسائل کا سامنا رہا، لیکن آئندہ چار ماہ میں نہ صرف اس کے قائد الطاف حسین کے مستقبل کا لندن میں فیصلہ ہوگا بلکہ آنے والے بلدیاتی انتخابات میں اس کی مقبولیت کا اصل امتحان ہونا ہے۔ نہ صرف مقبولیت کے گراف بلکہ بعداز آپریشن منظرنامہ میں اس کی تنظیمی صلاحیت کا بھی فیصلہ ہوگا۔ کراچی اور حیدرآباد کے آئندہ میئر یا سٹی ناظم یہ ثابت کریں گے کہ ایم کیو ایم کی قوت برقرار ہے یا تبدیل ہوگئی ، جماعت اسلامی خلاء پر کرنے کیلئے کوشاں ہے، نئی سیاسی جماعت تحریک انصاف خصوصاً کراچی میں بہتر کارکردگی کیلئے پرامید ہے، کیا یہ دونوں جماعتیں، الگ الگ یا مشترکہ طور پر، بساط اُلٹ سکتے اور ایم کیو ایم کی دو عشروں پر محیط غلبہ کی سیاست کا خاتمہ کر سکتے ہیں؟ روزنامہ جنگ کے تجزیہ کارمظہرعباس کے مطابق جماعت اسلامی اپنے کثیر تجربہ، تنظیم کے لحاظ سے بلدیاتی انتخابات لڑنے کیلئے تحریک انصاف سے زیادہ بالغ ہے۔ اگر ایم کیو ایم نے دو میئر یا سٹی ناظم ڈاکٹر فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال دیئے تو جماعت اسلامی کے بھی عبدالستار افغانی اور نعمت اللہ خان میئر اور سٹی ناظم رہے۔ ’’مہاجر کارڈ‘‘ یا کراچی کارڈ کتنا اہم ہے ان پارٹیوں پر انحصار ہے کہ وہ اپنے پتے کیسے کھیلتی ہیں۔ آبادی میں اضافے اور دیگر شہروں سے آبادی کی منتقلی کے باعث کراچی دیگر قومیتوں پنجابی و پشتونوں کی بھی بڑی تعداد رکھتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ شہر میں دسمبر کے بلدیاتی انتخابات کراچی کی مستقبل کی سیاست کی حرکیات طے کریں گے بلکہ سندھ کی سیاست کا انتہائی اہم مرحلہ مارچ 2016ء کے بعد آئے گا جب 1998ء کے بعد پہلی مردم شماری ہوگی جو نہ صرف پاکستان بلکہ کراچی کی حقیقی آبادی کا تعین کرے گی۔ اس کے بعد انتخابی نشستوں کی حلقہ بندی اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں میں اضافہ ہوگا۔ کراچی کے متعلق یہ تاثر بڑھ رہا ہے کہ یہ اب اردو بولنے والوں یا سیاسی اصطلاح میں ’’مہاجروں‘‘ کا شہر نہیں رہا، چنانچہ کراچی یا شہری سندھ کیلئے نیا اسکرپٹ یا کھیل کا پلان شہری علاقوں سے 70ء کی طرح نمائندگی کو دُگنا کرے گا؟ اگرچہ وزیراعظم نوازشریف نے جاری کراچی ٹارگیٹڈ آپریشن کے حتمی مرحلے کیلئے گرین سگنل دے دیا ہے، ایم کیو ایم کو مولانا فضل الرحمٰن کی سیاسی سفارتکاری کے نتیجہ کا انتظار ہے، چنانچہ ایم کیو ایم اگر اپنا کوئی بھی مطالبہ منظور کرائے بغیر اسمبلیوں میں واپس آئے گی تو یہ بڑا حیران کن ہوگا، دوم ضمنی انتخابات میں مقبولیت جانچنے کا رسک ہو سکتا ہے۔ ان کیلئے تیسرا آپشن بائیکاٹ ہو سکتا ہے مگر کیا اس آپشن کو اختیار کرے گی اور جماعت اسلامی و تحریک انصاف کو اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کی اجازت دے گی؟ مجھے شبہ ہے کہ ایم کیو ایم باہر رہے گی، لیکن خود کو پارلیمنٹ یا پارلیمانی سیاست سے باہر رکھنا مناسب نہیں ہوگا کیونکہ وہ مناسب سیاسی حمایت حاصل نہیں کر پائے، بہرحال ایم کیو ایم کیلئے آپریشن کے حتمی مرحلے کے پس منظر میں خصوصاً صورتحال آسان نہیں ہے یہ مرحلہ بلدیاتی الیکشن سے قبل شروع ہوگا، ایم کیو ایم کو اپنی سیاسی سرگرمیوں کے سلسلے میں بھی دبائو کا سامنا ہے۔ اس کے رہنمائوں کی پریس کانفرنس کے دوران ایم کیو ایم کے مرکز کے گرد رینجرز کا غیرمعمولی گشت ایم این اے رشید گوڈیل کی حمایت میں احتجاجی مظاہروں کے اعلان پر پیغام ہو سکتا ہے، ڈی جی رینجرز میجر جنرل بلال اکبر پہلے ہی یہ اعلان کر چکے ہیں کہ عیدالاضحیٰ پر کسی کو زبردستی کھالیں جمع کرنے نہیں دی جائیں گی جو اس کا اظہار ہے کہ خدمت خلق فائونڈیشن زیر نگرانی ہے۔چنانچہ اگر ایم کیو ایم اسمبلیوں میں واپس نہیں آتی تو اس کے پاس کیا رہ جاتا ہے، وہ سڑکوں پراحتجاج کو کتنے عرصے تک برقرار رکھ پائے گی۔ خصوصاً جب وہ سیاسی طور پر تنہا ہے۔ اگر کراچی ٹارگیٹڈ ایکشن پر اتفاق ہے، اگر تمام جنگجو گروپوں، پرائیویٹ آرمی، مطلب جہادی گروپ اور کالعدم گروپوں کے خاتمے پر سول و فوجی قیادت متفق ہیں، ایم کیو ایم کی پریشانیاں بڑھیں گی، اگرتمام سیاسی جماعتیں ایم کیو ایم کو گھٹانےکی خاموش حمایت کرتی ہیں اور اگر پارٹی کے اندر بزرگ، الطاف حسین و دیگر کو اپنی سیاستمیں تبدیلی کا مشورہ دیتے ہیں تو ایم کیو ایم کیلئے محدود جگہ رہ جائے گی سوائے اس کے کہ الطاف حسین کے پاس پارٹی کی بحالی کیلئے دیگر آئیڈیاز ہوں، چنانچہ اگر ایک جانب ایم کیو ایم آپریشن کا پرائم ٹارگٹ ہے اور اس کے 80 فیصد کارکن یا مبینہ عسکریت پسند گرفتار ہو چکے اور رینجرز کی 90 دن کی تحویل میں ہیں تو حکومت اور دیگر سیاسی جماعتیں اس کے ساتھ نہیں ہیں، کئی اہم رہنمائوں کی عدم موجودگی میں (جو پارٹی چھوڑ چکے ہیں)، یہ حیدر عباس رضوی کی طرف دیکھ رہے ہیں جو حال ہی میں منظرعام پر واپس آئے ہیں اور ڈاکٹر فاروق ستار، خالد مقبول صدیقی اور کنور نوید جیسے دیگر سینئر رہنمائوں پر بوجھ کم ہوگا، لہٰذا ایم کیو ایم آنے والے بلدیاتی انتخابات میں اپنی مقبولیت نہیں جانچتی ایم کیو ایم اپنی کھوئی ہوئی پوزیشن صرف اس وقت حاصل کرسکتی ہے جب وہ اپنے پتے اچھی طرح کھیلے لیکن اس کیلئے اس کی سیاسی اپروچ میں بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہے، حیدرآباد میں کامیابی اور دیگر اضلاع میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر کے وہ کراچی میں انتخابات کیلئے بہتر معیار قائم کر سکتی ہےجہاں الیکشن آخری مرحلے میں ہوں گے، اس سال کے ابتدائی آٹھ ماہ اس کی سیاست کیلئے سخت رہے، باقی چار ماہ مزید مشکل ہوں گے کیونکہ اس کے بعض اہم رہنمائوں پر مقدمات کی سماعت ہونی ہے رینجرز حکام ان میں سے بعض مقدمات فوجی عدالتوں میں بھیجنے کا عندیہ دے چکے ہیں کراچی میں سب گرم اکتوبر اور ٹھنڈے دسمبر میں نہیں ہونا