ہفتہ‬‮ ، 26 جولائی‬‮ 2025 

مولانافضل الرحمان کا کھیل ختم،ایم کیو ایم کے لئے تمام راستے بند

datetime 21  اگست‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

دبئی (نیوزڈیسک) اجتماعی استعفوں کی وجہ سے اندھی گلی میں پہنچنے والی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے تمام راستے بند ہو چکے ہیں اور اب باہر نکلنے کیلئے کوئی دروازہ یا کھڑکی موجود نہیں۔ جمعرات کو وزیراعظم نواز شریف نے بھی پیدا ہونے والی اس خلیج کو پر کرنے کی کوشش کی جو اب نمودار ہونا شروع ہوگئی ہے۔ وزیراعظم کے تیز رفتار دورے اور اس کے بعد اپیکس کمیٹی اور پھر پارسی کمیونٹی کے سامنے کراچی آپریشن کے حوالے سے وہی عزم دہرانے کے نتیجے میں مولانا فضل الرحمان کا کھیل بھی ختم ہو گیا ہے۔ اب یہ بات غیر متعلقہ ہوگئی ہے کہ ایم کیو ایم اپنے استعفے واپس لیتی ہے یا پھر اسمبلیوں سے باہر جانے کا فیصلہ کرتی ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ پریشر ڈال کر کامیابی حاصل کرنے کی چال چلنے میں ایم کیو ایم کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں تھا۔روزنامہ جنگ کے تجزیہ کارشاہین صہبائی کی رپورٹ کے مطابق حقیقت یہ ہے کہایم کیو ایم کی جانب سے چائے کی پیالی میں طوفان کھڑا کرنے کے باوجود وزیراعظم نواز شریف کے پاس بھی رینجرز کیلئے غیر متزلزل عزم کے اظہار کے سوا اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ تو اب ایم کیو ایم کے پاس کیا آپشن رہ جاتے ہیں؟ پارٹی نے یہ مان لیا ہے کہ آپریشن جاری رہے لیکن اس کیلئے ایک مانیٹرنگ کمیٹی بنائی جائے۔ اس سے ایم کیو ایم کے پاس ایک چھوٹا موقع باقی رہ گیا ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ مانیٹرنگ کمیٹی کیا کام کرے گی۔ اگر یہ سوچا جا رہا ہے کہ رینجرز کسی بھی چھاپے سے پہلے اس کمیٹی کو آگاہ کرے گی تو ایسا سمجھنا بے وقوفی ہوگی اور ایسا نہیں ہوگا۔ اگر کمیٹی کا کام صرف یہ دیکھنا ہوگا کہ کسے گرفتار کیا گیا ہے اور گرفتار شدگان کے ساتھ کیا سلوک کیا جا رہا ہے تو رینجرز یہ بات مان سکتی ہے لیکن اس سے ایم کیو ایم کو کیا فائدہ ہوگا۔ رینجرز پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ انہیں کسی بھی کمیٹی سے کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ جن لوگوں کو ہدف بنایا جا رہا ہے وہ مجرم اور قاتل، دہشت گرد اور جنگجو ہیں اور اگر کوئی یہ مانیٹرنگ کرنا چاہے کہ یہ لوگ کون ہیں تو اس سے کوئی مسئلہ نہیں۔ استعفوں کا کارڈ کھیل کر الطاف حسین نے شاید یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہوگی کہ لندن سے فیصلے اب بھی وہ ہی کرتے ہیں، لیکن یہ سوال اب بھی موجود ہے کہ آیا الطاف حسین کے پاس گلیوں کا کنٹرول اب بھی ویسا ہی ہے جیسا پہلے ایم کیو ایم کے سیکٹر انچارجز کے پاس تھا جس سے وہ چند ہی منٹوں میں پورے کراچی کو بند کروا دیتے تھے۔ بظاہر آپریشن کے نتیجے میں ایم کیو ایم کی طاقت ختم ہوگئی ہے اور اس کا اظہار اس وقت بھی ہوا جب ایم کیو ایم نے ہڑتال کا اعلان کرنے کی کوشش کی لیکن اسے فوراً اپنے اعلان سے پیچھے ہٹنا پڑا۔ اگر ایم کیو ایم اور الطاف بھائی کراچی کی سڑکوں پر آخری جنگ چھیڑنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو یہ بہت ہی تباہ کن صورتحال ہوگی۔ لیکن ایم کیو ایم کیلئے بہترین راستہ یہ ہے کہ وہ واپس اسمبلیوں میں آئے اور ایم کیو ایم کے خلاف مبینہ امتیازی سلوک پر اپنے بیانات دیتی رہے۔ لیکن اگر ایم کیو ایم نے جنگجوئوں، مجرموں اور دہشت گردوں کے دفاع کا سلسلہ جاری رکھا تو اس کی مدد کیلئے کوئی نہیں آئے گا اور موجودہ صورتحال میں کراچی کے خوشحال لوگ بھی نہیں چاہیں گے کہ انہیں کسی پارٹی یا پھر دور بیٹھے کسی شخص کی خواہشات کے مطابق ایک مرتبہ پھر یرغمال بنا لیا جائے۔ ایم کیو ایم کیلئے ایک معقول اور دانشمندانہ آپشن یہ ہوگا کہ وہ انتظار کرلیں، زیادہ سرگرمیوں میں نہ پڑیں اور بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیں۔ اگر پارٹی نے ٹھوس نتائج دکھائے تو اسے کچھ سیاسی مضبوطی مل جائے گی لیکن یہاں بھی الطاف حسین کو جنگجوئوں اور ہر طرح کے مجرموں کو اپنی پارٹی سے دور رکھنا ہوگا۔ سب سے زیادہ انحصار اس بات پر ہے کہ لندن میں الطاف حسین کی قسمت میں کیا لکھا ہے اور ان کا مستقبل کیا ہوگا۔ اگر بے وقوفی کرکے ایم کیو ایم نے پارلیمنٹ چھوڑ دی تو دوبارہ اس قدر بھاری طاقت حاصل کرنا جوئے شیر لانے جیسا ہوگا۔ ان کے استعفوں سے مرکز کیلئے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں اور اگر کسی وجہ سے عمران خان کی جماعت پی ٹی آئی نے بھی ایم کیو ایم کا ساتھ دے کر اسمبلیاں چھوڑنے کا فیصلہ کیا تو وزیراعظم نواز شریف شاید پریشانی محسوس کریں۔ ممکن ہے کہ عمران خان ایسا نہیں کریں گے، لیکن اگر ان کی جانب سے قومی اسمبلی کے اسپیکر کو این اے 122 کیلئے دیا جانے والا چیلنج ناکام ہو گیا، اور مرحلوں میں بلدیاتی انتخابات کرانے پر ان کے تحفظات دور نہ کیے گئے تو وہ اور ان کے گرد موجود عقاب، کوئی بھی، انہیں سخت اقدام کیلئے مشورہ دے سکتا ہے۔ –



کالم



کرایہ


میں نے پانی دیا اور انہوں نے پیار سے پودے پر ہاتھ…

وہ دن دور نہیں

پہلا پیشہ گھڑیاں تھا‘ وہ ہول سیلر سے سستی گھڑیاں…

نیند کا ثواب

’’میرا خیال ہے آپ زیادہ بھوکے ہیں‘‘ اس نے مسکراتے…

حقیقتیں(دوسرا حصہ)

کامیابی آپ کو نہ ماننے والے لوگ آپ کی کامیابی…

کاش کوئی بتا دے

مارس چاکلیٹ بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی…

کان پکڑ لیں

ڈاکٹر عبدالقدیر سے میری آخری ملاقات فلائیٹ میں…

ساڑھے چار سیکنڈ

نیاز احمد کی عمر صرف 36 برس تھی‘ اردو کے استاد…

وائے می ناٹ(پارٹ ٹو)

دنیا میں اوسط عمر میں اضافہ ہو چکا ہے‘ ہمیں اب…

وائے می ناٹ

میرا پہلا تاثر حیرت تھی بلکہ رکیے میں صدمے میں…

حکمت کی واپسی

بیسویں صدی تک گھوڑے قوموں‘ معاشروں اور قبیلوں…

سٹوری آف لائف

یہ پیٹر کی کہانی ہے‘ مشرقی یورپ کے پیٹر کی کہانی۔…