اسلام آباد (نیوزڈیسک)کرپٹ اور بری شہرت رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ کو مکمل تحفظ دینے کےلیے پارلیمنٹ کی انتخابی اصلاحات کمیٹی نےآئینی ترمیم کے ذریعے آئین کے آرٹیکل 62کی اسلامی شقوں کو عدالتی فیصلوں سے مربوط کرنے کےلیے کہا گیا ہے۔معروف صحافی انصارعباسی کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق مجوزہ ترامیم اگربالآخر پارلیمنٹ سے منظور ہوجاتی ہیں تو یہ آئین کی بنیادوں پر ضرب لگانے کے مترادف ہوگی کیونکہ اسلامی شقیں 1973کے آئینی کے بنیادی خدوخال میں سے ہیں۔اس عوامی مطالبے کے برعکس کہ پارلیمنٹ کےلیے انتخاب کے دوران اسلامی شقوں کے نفاذ کے میکنزم کو بہتر بنایا جائے تاکہ صرف دیانتدار، صالح اور باعمل مسلمان ہی قومی اسمبلی اور سینٹ کا حصہ بن سکیں،ذیلی کمیٹی نے ایک ایسی تجویز دی ہے جو عملاً ان شقوں کو بے اثر کر دے گی۔دلچسپ امریہ ہے کہ اصلاحات کمیٹی بنیادی طور پر انتخابی عمل میں اصلاحات کےلیے تشکیل دی گئی تھی تاکہ انتخابات کا آزادانہ ، غیر جانبدارانہ اور شفاف ہونا یقینی بنایا جاسکے تاہم سب کمیٹی نے ان انتخابی اصلاحات کے پردے میں آئین کی اسلامی شقوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے۔اصلاحات کمیٹی کی دستاویزات جو دی نیوز کو دستیاب ہیں وہ بتاتی ہیں کہ ذیلی کمیٹی نے آئین کی شق 62(1)(d)(e)(f)میں تبدیلی کا تقاضا کیا ہے۔آرٹیکل 62کی ان شقوں کے ذریعے اس امر کو یقینی بنایاجاتا ہے کہ صرف اچھے کردار ،ایسے افراد جو اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی کرنے کے حوالے سے معروف نہ ہوں یا وہ جنہیں اسلامی تعلیمات کا مناسب علم نہ ہو، یا وہ جو اسلام کے مطابق اپنے فرائض انجام دینےم یں کوتاہی برتتے ہوں اور گناہ کبیرہ سے احتراز نہ کرتے ہوں وہ پارلیمنٹ ؛ قومی اسمبلی ،سینیٹ ، صوبائی اسمبلیوں کاکا رکن بننے کے اہل نہ بن سکیں۔اس امر کو اچھی طرح جانتے ہوئے کہ ان شقوں کے نفاذ کے میکنزم سے زیادہ تر ارکان پارلیمنٹ نااہل ہوجائیں گے ، سب کمیٹی نے تجویز کیا ہے کہ یہ شقیں صرف اس وقت لاگو ہوں گی جب ان کے پس پشت کوئی عدالتی فیصلہ ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص جو باقاعدگی سے نمازیں نہیں پڑھتا وہ اس کے باوجود پارلیمنٹ کا رکن بن سکتا ہے اور اسے اس وقت تک ڈس کوالیفائی نہیں کیاجا سکتا جب تک کہ کوئی عدالت اس حوالے سے فیصلہ نہ دے۔18ویں ترمیم میں عدالتی فیصلے سے اس قسم کی جس واحد شق کو مربوط کیا گیا تھا وہ 62(1)(f)تھی جس میں غیر عقلمند، غیر دیانتدار، فاجرو فاسق شخص کو نااہل قرار دینےکا معیار دیتی ہے۔فی الوقت آئین کے آرٹیکل61(1)d, e,fکے بارے میں کہتا ہے کہ ’’مجلس شوری (پارلیمنٹ) کی رکنیت کےلیے اہلیت: (اے) ون : کوئی شخص اس وقت تک پارلیمنٹ کا انتخاب لڑنے یا چنے جانے کا اہل قرار نہیں پاتا جب تک کہ (ڈی) وہ اچھے کردار کا حامل نہ ہو اور وہ اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی کرنے کے حوالے سے معروف نہیں ہونا چاہئے۔ (ای)اس کے پاس اسلامی تعلیمات کا مناسب علم ہوانا چاہیے اور وہ اسلام میں دیئے گئے فرائض بجالاتا ہو اور ساتھ ہی ساتھ گناہ کبیرہ سے بچتا ہو (ایف) وہ عقلمند، دیانتدار ہو اور فاسق و فاجر نہ ہوا، ایماندار اور امین ہواور اس حوالے سے کسی عدالت نے اس کے برعکس کوئی فیصلہ جاری نہ کررکھا ہو‘‘۔ریفارم کمیٹی کو ذیلی کمیٹی کی جانب سے تجویز کیا گیا ہےکہ وہ ان شوں کو مندرجہ ذیل طریقے سے ترمیم کرے’’ مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ ) کی رکنیت کےلیے معیار: (اے ) ون کوئی شخص اس وقت تک پارلیمنٹ کا رکن بننے کا اہل نہیں ہوگا جب تک کہ (ڈی)اس کے اچھے کردار اور اسلامی تعلیمات کے حوالے سے اس کی شہرت کےخلاف عدالت نے کوئی فیصلہ صادر کر رکھا ہو(ای) اس کے اسلامی تعلیمات کے علم کے حوالے سے، اپنے فرائض کی ادائیگی کے حوالے سے اور گناہ کبیرہ سے بچنے کے حوالے سے عدالت نے اس کے خلا ف کوئی فیصلہ نہ دے رکھا ہو۔ (ایف) وہ عقلمند، دیانتدار ہو اور فاسق و فاجر نہ ہوا، ایماندار اور امین ہواور اس حوالے سے کسی عدالت نے اس کے برعکس کوئی فیصلہ جاری نہ کررکھا ہوـ‘
انتخابی اصلاحات,پارلیمانی کمیٹی نے آئین کی اسلامی شقوں کو نشانہ بنا لیا
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں