اسلام آباد (نیوزڈیسک) وزیر اعظم نوا زشریف کے پاس ٹھوس اطلاعات موجود ہیں کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ریٹائرڈ ظہیر الاسلام2014کے دھرنا شو کے ذریعے حکومت کو غیر مستحکم کرنے میں ملوث تھے اس کے باوجود انہوں نے نظام کو بچانے اور سول ملٹری کشیدگی سے بچنے کےلیے جاسوس ادارے کے سابق سربراہ کے خلاف کار رو ا ئی سے گریز کیا ۔معرف تحقیقاتی صحافی انصارعباسی کی رپورٹ کے مطابق معتبر حکومتی ذرائع نے بتا یا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف نے وزیر داخلہ چوہدری نثارعلی خان کی موجودگی میں اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی کو ہدایت کی تھی کہ وہ صورتحال کو بے اثر کریں لیکن انہوں نے اس کے برعکس کیا۔ان ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نے اس صورتحال پر آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے بھی بات کی جو جاسوس ادارے کے سابق سربراہ کے برعکس حکومت سے مکمل تعاون کرتے رہے ہیں اور انہوں نے ملک کی آئینی طور پر منتخب حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوششوں کی کبھی حمایت نہیں کی۔ ان دنوںوزیر اعظم نواز شریف کو چند افراد کی جانب سے لیفٹننٹ جنرل (ر) ظہیر الاسلام کے خلاف کارروائی کرنے کا مشورہ دیا گیا لیکن انہوں نے مکمل تحمل اختیار کیا اور صابر رہے۔ ایک ذریعے کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف کا خیال تھا کہ جنرل ظہیر کے خلاف ان کی کارروائی سے بے یقینی کی صورتحال مزید بڑھ جائے گی اور اس سے ان قوتوں کافائدہ ہوگا جو جمہوری نظام اور آئینی حکمرانی کوزک پہنچانا چاہتے ہیں۔میڈیا میں اگر چہ بہت سی قیاس آرائیاں ہوئیں اور اس میں وہ رپو ر ٹ بھی شامل تھی جس کے مطابق آرمی چیف نے وزیر اعظم سے استعفے کا تقاضا کیا تھا لیکن پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے دھرنوں کے دنوں میں جنرل راحیل کشیدگی کو ختم کرنے کے لیے بھرپور طریقے سے تعاون کر رہے تھے اور صورتحال کو معمو ل پر لانے میں کردار ادا کیا۔وزیر دفاع خواجہ آصف نے حال ہی میںدھرنوں کے دوران نواز شریف کی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کےلیے سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ظہیر الاسلام کانام لیا ہے۔ ایک ٹی وی انٹرویو میں خواجہ آصف نے کہا ہے کہ 2014کا لندن پلان نواز شریف حکومت کے خلاف تھا اور یہ دو یکے بعد دیگر ے اانے والے آئی ایس آئی چیفس لیفٹننٹ جنرل شجاع پاشا اور لیفتننٹ جنرل (ر) ظہیر الاسلام کی مشترکہ کارستانی تھی۔خواجہ آصف نے مزی کہا کہ جنرل ظہیر کی جیو کے معاملے پر حکومت سے پر خاش تھی اور اپنی اس ذاتی پرخاش کے باعث جنرل ظہیر نے قومی مفاد کو نقصان پہنچایا۔ تاہم خواجہ نے کہا کہ وزیر اعظم نے صبر کا مظاہرہ کرکے صورتحال کو سنبھال لیا۔گزشتہ برس ستمبر مین رائترز نے بھی پاکستان میں حکومت مخالف مظاہروں کی خبر دی تھی اور یہ سب کچھ ان پانچ طاقتور لیفٹننٹ جرنیلوں (جن کے بارے میں خیال ہے کہ وہ سارے کے سارے ریٹائر ہوچکے ہیں) کوقائل کرنے کےلیے کافی تھا کہ وقت آگیا ہے کہ وہ اقدام کریں اور مشکلات کے شکاروزیر اعظم نواز شریف کو مستعفی ہونے پر مجبور کریں۔اگرچہ رائٹرز نے ان پانچ جرنیلوں کے نام تو نہیں دیئے تاہم یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اعلیٰ جرنیلی قیادت کااگست میں راولپنڈی کی چھائونی میں اس وقت اجلاس ہوا جب مظاہرے عروج پر تھے۔یہ کہا گیا ’’4گھنٹے تک ہونے والے اس کشیدہ اجلاس کی وجہ سے پاکستان(جہاں اقتدار کی تبدیلی زیادہ تر انتخابات کے بجائے بغاوت سے ہوتی ہے) میں جمہوری عمل ایک مرتبہ پھر خطرے کا شکار ہوگیا۔رائٹر نے اپنی رپورٹ میں مزید لکھا تھا کہ ’’ لیکن آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے فیصلہ کیا کہ سول حکومت کو اکھاڑ پیھنکنے کےلیے یہ وقت درست نہیں ہے اور انہوں نے اپنی صفوں میں موجود سخت گیر عناصر کی رائے کو مسترد کرتے ہوئے اختلاف کو کچل دیا اور اعلان کیا کہ بحران کو سیاست کے ذریعے حل ہونا چاہیے نہ کہ فوج کے ذریعے۔