تہران (این این آئی)ایران نے یورپی ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ امریکا کی ایران کے ساتھ طے پائے جوہری معاہدے میں واپسی کے لیے ثالث کا کردار ادا کریں۔ایرانی وزیر خارجہ کی طرف سے یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب دوسری طرف امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے کہا ہے کہ ایران نے یورپی ثالثی کے تحت
امریکا کی جوہری پروگرام میں واپسی کی شرط پر جوہری معاہدے کی خلاف ورزیاں روکنے کی پیش کش کی ہے۔ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ جوہری معاہدے میں امریکا کی واپسی کے لیے ایک ہی وقت میں رابطہ کاری ممکن ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یورپی یونین کی خارجہ و سیاسی کمیٹی کے سربراہ جوزف بوریل امریکا کی جوہری معاہدے کے حوالے سے رابطہ کاری کریں گے۔ایرانی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ امریکا اور ایران کا ایک ہی وقت میں جوہری معاہدے کی طرف بڑھنے کا امکان موجود ہے۔ اس حوالے سے جلد کوئی موثر میکانزم طے کیا جائے گا۔قبل ازیں ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے کہا تھا کہ امریکا کے ساتھ براہ راست مذاکرات کا کوئی امکان نہیں۔امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے کہا تھا کہ ان کا ملک ایران کے ساتھ طے پائے جوہری معاہدے میں واپسی کے لیے تیار ہے۔ تاہم اس کے لیے ایران کو بھی معاہدے کی تمام شرائط پر عمل کرنا ہوگا۔دوسری جانب امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ اینٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ ایران جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں استعمال ہونے والا مواد حاصل کرنے میں چند ہفتوں کی دوری پر ہو۔ بلنکن نے کہا کہ امریکی صدر جو بائیڈن ایران کے لیے ایک ایسی مضبوط ٹیم بنا رہے ہیں جو ایران کے ساتھ جوہری
معاہدے کو اقوام متحدہ کی جانب سے حمایت یافتہ جوائنٹ کمپری ہنسیو پلان آف ایکشن (جے سی پی او اے) معاہدے سے زیادہ ’دیرپا اور مضبوط‘ بنائے۔جے سی پی او پر 2015 میں سلامتی کونسل کے مستقل ارکان نے دستخط کیے تھے جن میں امریکہ، برطانیہ، چین، روس اور فرانس شامل تھے جبکہ جرمنی اور یورپی یونین نے
بھی دستخط کیے۔صدر ٹرمپ نے 2018 میں ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ واپس لے لیا تھا اور تہران پر پابندیاں لگا دی تھیں۔اس فیصلے کو اپوزیشن کی نیشنل کونسل آف ریزسٹنس آف ایران کی جانب سے سراہا گیا۔نیشنل کونسل آف ریزسٹنس آف ایران کی جانب سے ہی ایسے ثبوت فراہم کیے گئے تھے کہ ایران جے سی پی او اے کے باوجود اپنی جوہری صلاحیتوں میں اضافہ کر رہا ہے۔اپنے ایک انٹرویو میں بلنکن نے یہ بھی کہا کہ بائیڈن انتظامیہ شمالی
کوریہ پر نئی پابندیاں عائد کرنے کے ساتھ ساتھ روس کے خلاف بھی دیگر ممکنہ اقدامات پر غور کرے گی کیونکہ وہ اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کر رہی ہے۔بلنکن نے ماسکو کے خلاف پابندیوں کی نوعیت کے بارے میں نہیں بتایا تاہم انتظامیہ کی جانب سے روس کی صورت حال کا جائزہ لیا گیا ہے جس میں روس میں قید اپوزیشن لیڈر الیکسی نیوالنی، انتخابات میں مداخلت اور افغانستان میں امریکی فوجیوں کے خلاف انعامات شامل ہیں۔