برلن (این این آئی)جرمنی سے گزشتہ برس مجموعی طور پر گیارہ ہزار سے زائد غیر ملکیوں کو ہمیشہ کے لیے ملک بدر کر دیا گیا۔ یہ تعداد ایک سال پہلے کے مقابلے میں پچاس فیصد زیادہ تھی۔ ان میں مستقل رہائشی پرمٹ کے حامل غیر ملکی بھی شامل تھے۔میڈیارپورٹس کے مطابق ان حقائق کی ملکی پارلیمان کے ایوان زیریں میں بائیں بازو کی سیاسی جماعت دی لِنکے کے حزب کی طرف سے
پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں تصدیق کر دی گئی ۔جرمن وزارت داخلہ کے مطابق 2019 میں جرمنی سے مجموعی طور پر 11081 غیر ملکیوں کو اس طرح ملک بدر کیا گیا کہ اب وہ دوبارہ جرمنی میں داخل نہیں ہو سکتے۔ یہ تعداد 2018 کے مقابلے میں 50 فیصد زیادہ تھی۔ دو سال قبل یورپی یونین کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک جرمنی سے کل 7408 غیر ملکیوں کو ملک بدر کر کے ان کے آبائی ممالک میں بھیجا گیا تھا۔جرمن قوانین کی رو سے ہر ایسے غیر ملکی کو، جسے عوامی سلامتی اور نظم و ضبط کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہو اور چاہے اس کے پاس جرمنی میں مستقل قیام کا رہائشی پرمٹ بھی ہو، جرمنی بدر کیا جا سکتا ہے۔ ایسے غیر ملکیوں کو جرمنی سے جبرا ان کے آبائی ممالک میں بھیج دیا جاتا ہے۔ان غیر ملکیوں میں سب سے زیادہ تعداد یوکرائن، البانیہ اور سربیا کے شہریوں کی تھی۔ 2019 میں جرمنی سے یوکرائن کے 1252، البانیہ کے 1220 اور سربیا کے 828 شہریوں کو ملک بدر کیا گیا۔ یہ سارے ہی غیر ملکی یورپی یونین سے باہر مگر صرف مختلف یورپی ریاستوں کے شہری نہیں تھے۔ ان میں بہت بڑی تعداد میں مختلف افریقی ممالک، عرب ریاستوں اور ایشیا میں پاکستان اور افغانستان جیسے ممالک کے بہت سے شہری بھی شامل تھے۔جرمن وزارت داخلہ کے مطابق پچھلے سال جن تقریبا گیارہ ہزار ایک سو غیر ملکیوں کو جرمنی بدر کیا گیا، ان کی سب سے بڑی تعداد جنوبی صوبے باڈن ورٹمبرگ میں رہائش پذیر تھی۔ باڈن ورٹمبرگ جرمنی کا وہ صوبہ ہے، جہاں غیر ملکیوں سے متعلقہ امور کے نگران صوبائی محکمے کی طرف سے سب سے زیادہ سختی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔جرمنی میں برسر روزگار غیر ملکیوں میں سے سب سے زیادہ افراد کا تعلق ترکی سے ہے۔ ایسے ترک باشندوں کی تعداد 5 لاکھ 47 ہزار بنتی ہے۔جرمن وزارت داخلہ کے مطابق اس سال کی پہلی ششماہی کے دوران جرمنی سے کل 3369 غیر ملکیوں کو ملک بدر کیا گیا۔ یہ تعداد ایک سال پہلے کے ابتدائی چھ ماہ کے مقابلے میں اس لیے بہت کم رہی کہ کورونا وائرس کی وبا، لاک ڈان اور طبی سلامتی کی وجوہات کے پیش نظر ایسی ملک بدریاں یا تو روک دی تھیں یا بہت ہی کم کر دی تھیں۔