بیجنگ(آئی این پی)افغان مفاہمتی کوششوں میں چین پاکستان کیساتھ کھڑا ہے۔توقع ہے کہ امریکہ اور دیگر فریق بہتر نتائج حاصل کرنے کیلئے اپنے خلوص کا اظہار کرینگے۔یہ ایک اچھی علامت ہے کہ چین پاکستان اور افغانستان کے وزرائے خارجہ بات چیت کیلئے اس ماہ کابل میں اکھٹے ہو رہے ہیں۔تاکہ خطے کے عوام کی زندگیوں کو بہتر بنانے کیلئے اس مسئلے کے پرامن حل کی طرف پیش رفت کی جائے۔
ان خیالات کا اظہار چین کے معروف اخبار’’چائنہ ڈیلی‘‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں کیا گیا ہے۔مضمون میں کہا گیا ہے کہ مسئلے کے پرامن حل کیلئے امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کے نام خط قابل تعریف اقدام ہے۔توقع کی جانی چاہیے کہ17سال سے جاری غیر ضروری جنگ کے خاتمے کیلئے امن کی نئی کوششیں بارآور ثابت ہونگی۔جس میں اربوں ڈالر خرچ ہو رہے ہیں اور بے شمار انسانی جانیں ضائع ہو رہی ہیں اور اب آخر میں امریکہ افغانستان کے پرامن حل کے لیے سوچ رہا ہے۔اخبار لکھتا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ امن ہی آخری آپشن ہے ۔ کیونکہ افغان جنگ نے پورے خطے کو غیر مستحکم کیا ہے اور بہت نقصان پہنچایا ہے۔چین،روس،ایران،ترکی اور دیگر تمام علاقائی ممالک ایک مستحکم افغانستان چاہتے ہیں حال ہی میں روس نے افغان مسئلے کا ماسکو فارمیٹ تجویز کرتے ہوئے امن مذاکرات کیلئے دفتر کی بھی پیشکش کی ہے۔چین ایک علاقائی سیاسی طاقت ہونے کے ناطے افغان امن عمل میں ایک محرک کے طور پر شامل رہا ہے۔تاکہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات معمول پر آ سکیں۔اخبار کے مطابق بیلٹ اینڈروڈ منصوبے خصوصاً سی پیک کے حقیقی فوائد اسی وقت سامنے آ سکتے ہیں جب ایک مستحکم اور پرامن افغانستان موجود ہو۔سب سے بڑھ کر یہ کہ روس سینٹرل ایشیاء اور یوریشیا کے ممالک افغانستان کے راستے ہی گوادر کی بندرگاہ کو استعمال کر سکتے ہیں۔
پاکستان کسی اور ملک کی نسبت افغانستان کو سب سے بہتر سمجھتا ہے۔کیونکہ دونوں ممالک ہمسائے ہیں ان کی سرحد مشترکہ ہے جبکہ ثقافت زبان اور بعض دیگر قدریں بھی دونوں ممالک میں مشترکہ ہیں۔کوئی دوسری قوم افغانستان کے امن اور استحکام میں پاکستان کے خلوص سے بڑھکر مثبت کردار ادا نہیں کرسکتی۔افغانستان حل کیلئے اگر ویتنام کی طرح امریکہ مکمل طور پر واپس جاتا ہے تو اس کا ایک ہی حل ہے کہ پاکستان امریکہ کو واپسی کیلئے محفوظ راستہ فراہم کر سکتا ہے۔
افغانستان میں امن سے سنٹرل ایشیاء روس،چین اور گوادر میں اقتصادی سرگرمیوں کی زیادہ حوصلہ افزائی ہو گی۔اس سے افغانستان اور ہمسایہ ممالک کی تجارت اور معیشت بہتر ہو گی اور غربت میں کمی کے باعث پورے خطے کی تقدیر بدل جائیگیْ۔حال میں ہی شنگھائی تعاون تظیم میں افغانستان کے صدر کو مہمان اور مبصر کے طور پر شرکت کی دعوت دی گئی تھی توقع ہے کہ وہ جلد ہی اس کے مکمل رکن بن جائیں گے۔اگر افغانستان میں امن قائم ہو جاتا ہے تو مستقبل میں سی پیک کو افغانستان تک توسیع دی جا سکتی ہے۔