واشنگٹن(این این آئی)امریکی دفتر خارجہ کے قریب ایک درجن حکام نے وزیر خارجہ ٹلرسن پر غیر ملکی فوجوں اور ملیشیا گروپوں کی طرف سے نابالغ فوجیوں کے استعمال سے متعلق ایک امریکی قانون کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہوئے ان کے خلاف بغاوت کر دی ہے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق ایک درجن امریکی
حکومتی اہلکاروں نے وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن پر الزام لگایا کہ انہوں نے امریکا ہی کے ایک وفاقی قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔ یہ قانون اس امر کا احاطہ کرتا ہے کہ بیرونی ممالک میں کسی بھی ریاست کی فوج یا ملیشیا گروپ اپنی صفوں میں نابالغ بچوں کو فوجیوں یا جنگجوؤں کے طور پر بھرتی نہ کریں۔یہ اقدام، جسے وزیر خارجہ ٹلرسن کے خلاف ’بغاوت‘ کا نام بھی دیا جا سکتا ہے، امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ایک ایسے اندرونی لیکن خفیہ دستاویز کی صورت میں سامنے آیا، یہ میمو 28 جولائی کو لکھا گیا تھا۔اس ’میمو‘ کے مطابق، جس کی موجودگی کا آج تک کسی کو علم نہیں تھا، امریکی وزیر خارجہ ٹلرسن اس وقت امریکا ہی کے ایک وفاقی قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے، جب انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ عراق، میانمار اور افغانستان کو ان ممالک کی امریکی فہرست میں شامل نہ کیا جائے، جہاں جنگی مقاصد کے لیے نابالغ بچوں کو بھرتی کیا جاتا ہے۔اس خفیہ میمو کے مطابق ٹلرسن نے یہ فیصلہ اس حقیقت کے باوجود کیا کہ خود انہی کی قیادت میں کام کرنے والا امریکی محکمہ خارجہ ملکی وزیر خارجہ کے اس اقدام سے قبل کھلم کھلا یہ اعتراف کر چکا تھا کہ ان تینوں ممالک میں نابالغ بچے فوجیوں کے طور پر بھرتی کیے جاتے ہیں۔امریکی وزارت خارجہ کی طرف سے یہ فہرست ہر سال تیار کی جاتی ہے اور اس میں عراق، میانمار اور افغانستان کے نام شامل کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ یوں واشنگٹن حکومت کے لیے
ان تینوں ریاستوں کو فوجی مدد فراہم کرنا آسان ہو گیا۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ عراق اور افغانستان تو امریکا کے دو بہت قریبی اتحادی ممالک بھی ہیں، جہاں ملکی حکومتیں عسکریت پسند مسلمانوں کے خلاف طویل عرصے سے جنگی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔اس کے برعکس میانمار ابھی امریکا کا عراق اور افغانستان جیسا اتحادی ملک
تو نہیں لیکن وہ واشنگٹن کا مسلسل ابھر کر سامنے آنے والا ایک اہم اتحادی ملک ضرور بنتا جا رہا ہے۔ میانمار کے ساتھ امریکا کی اس قربت کی وجہ واشنگٹن حکومت کی یہ خواہش ہے کہ جنوب مشرقی ایشیا میں خطے کی ایک بڑی طاقت چین کے اثر و رسوخ کا توڑ نکالا جائے۔اس میمو کی روشنی میں یہ بات بھی ثابت ہو گئی کہ ریکس ٹلرسن نے بطور وزیر خارجہ اس حوالے سے عراق،
افغانستان اور میانمار سے متعلق جو ’خلاف قانون‘ استثنائی فیصلہ کیا، وہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے اپنے قانونی ماہرین، اسی محکمے کے انسانی حقوق کے دفتر، پاکستان اور افغانستان کے لیے امریکی سفیروں، اور ایشیا کے علاوہ مشرق وسطیٰ میں امریکی سفارت خانوں کے نگران دفتر خارجہ کے اپنے علاقائی شعبوں کے سربراہان کی متفقہ سفارشات کے بالکل برعکس کیا۔