استنبول(نیوز ڈیسک)ترکی نے عیسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس کی جانب سے سلطنت عثمانیہ کے دور میں آرمینیائی باشندوں کے قتل کو ’بیسویں صدی کی پہلی نسل کشی‘ قرار دیے جانے پر احتجاجاً ویٹیکن سے اپنا سفیر واپس بلا لیا ہے۔پوپ فرانسس نے آرمینیا کے بارے میں یہ جملے اتوار کی صبح روم میں ایک سروس کے دوران کہے جس پر ترکی نے شدید غم وغصے کا اظہار کیا ہے۔آرمینیا اور کئی تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ سنہ 1915 میں پہلی عالمی جنگ کے دوران عثمانی فوجوں نے تقربیا 15 لاکھ افراد کو قتل کیا تھا۔
ترکی ان اعداد و شمار کو ہمیشہ غلط قرار دیتا ہے اور اس کا موقف ہے کہ یہ اموات عالمی جنگ میں شروع ہونی والی عام شورش کا حصہ تھیں۔ اس تنازعے کے باعث ترکی اور آرمینیا کے درمیان تعلقات خراب رہے ہیں۔’گذشتہ صدی میں انسانیت تین بہت بڑے المیوں کے باوجود جن کی مثال ممکن نہیں ہے آگے بڑھی ہے۔ پہلا واقعہ جسے دنیا کا ایک بڑا حصہ بیسویں صدی کی پہلی نسل کشی سمجھتا ہے، اس کا تعلق آپ کے آرمینیا کے لوگوں ہی سے تھا۔‘
پوپ نے آرمینیا کے بارے میں اپنا تبصرہ کیتھولک رسوم کی ادائیگی کے دوران کیا۔ اس تقریب میں آرمینیا کے صدر اور گرجا گھر کے رہنما بھی شریک تھے۔پوپ کا کہنا تھا ’گذشتہ صدی میں انسانیت تین بہت بڑے المیوں کے باوجود جن کی مثال ممکن نہیں ہے آگے بڑھی ہے۔ پہلا واقعہ جسے دنیا کا ایک بڑا حصہ بیسویں صدی کی پہلی نسل کشی سمجھتا ہے، اس کا تعلق آپ کے آرمینیا کے لوگوں ہی سے تھا۔‘
پوپ فرانسس کے الفاظ کی ترتیب و شکل ویسی ہی تھی جیسی سنہ 2001 پوپ جان پال کے اعلان کی تھی۔
پوپ فرانسس نے ’نازیوں اور سٹالن کے ماننے والوں کے‘ ہاتھوں ہونے والے جرائم کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ انسانی نسل کشی کے دیگر واقعات کمبوڈیا، روانڈا، برونڈی اور بوسنیا میں بھی ہوئے۔ انھوں نے کہا کہ ان کا فرض ہے کہ ہلاک ہونے والوں کی یاد کا احترام کریں۔پوپ کا بیان قانونی طور پر اور تاریخی حقیقتوں سے بہت دور ہے اور اس تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ انھوں نے کہا ’مذہبی عہدوں پر فائز لوگوں کا یہ کام نہیں کہ وہ بے بنیاد الزامات کے ذریعے غصے اور نفرت کو ہوا دیں۔
پوپ فرانسس نے کہا ’برائی کو چھپانا یا اس سے انکار کرنا ایسا ہی ہے جیسا مرہم پٹی کرنے کے بجائے کسی زخم سے خون رسنے دینا‘۔آرمینیا کے صدر سرز سرگسیان نے پوپ کے الفاظ کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ ان سے عالمی برادری کو ایک طاقتور پیغام ملا ہے۔تاہم ترکی نے پوپ کے جملوں پر شدید احتجاج کرتے ہوئے انقرہ میں پاپائی حکومت ویٹیکن کے سفیر کو فوری طور پرطلب کر کے ان سے پوپ کے الفاظ کی وضاحت مانگی۔ اس کے بعد ترکی نے روم سے اپنے سفیر کو بھی واپس آ جانے کا حکم دیا ہے۔ترک وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ اسے پوپ کے جملوں پر ’بہت مایوسی اور دکھ‘ ہوا ہے اور اس واقعہ سے دونوں کے درمیان اعتماد کا مسئلہ پیدا ہوگا۔ترک وزیرِ خارجہ نے کہا کہ پوپ کا بیان قانونی طور پر اور تاریخی حقیقتوں سے بہت دور ہے اور اس تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ انھوں نے کہا ’مذہبی عہدوں پر فائز لوگوں کا یہ کام نہیں کہ وہ بے بنیاد الزامات کے ذریعے غصے اور نفرت کو ہوا دیں۔‘
پوپ کے بیان پر احتجاج، ترکی نے سفیر واپس بُلا لیا
13
اپریل 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں