بدھ‬‮ ، 15 جنوری‬‮ 2025 

ہمارے کھانوں میں کس ’خطرناک چیز‘ کے ذرات شامل ہوتے ہیں؟

datetime 25  اکتوبر‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

برطانیہ(مانیٹرنگ ڈیسک) سائنس دانوں کو پہلی مرتبہ اس بات کا سراغ ملا ہے کہ انسان غذا کے ساتھ معدے میں پلاسٹک کے معمولی ذرات بھی اتار لیتے ہیں۔ برطانیہ اور دیگر ممالک کے شہریوں پر کی گئی تحقیق کے دوران حاصل کیے گئے نمونوں میں پلاسٹک کے معمولی ذرات کی 9 مختلف اقسام پائی گئیں۔ ویب سائٹ ایم ایس این کی رپورٹ کے مطابق ماہرین کا ماننا ہے کہ پلاسٹک کے ذرات

انسانوں کے اندر مدافعتی نظام کو نقصان پہنچانے اور وائرس پھیلانے کا باعث ہوسکتے ہیں۔ اسکائی میڈیا کی جانب سے دو سال قبل پلاسٹک کے حوالے سے مہم اوشین ریسکیو شروع کی تو اس حوالے سے خطرات کی تصدیق ہوئی جس کو اس لیے شروع کیا گیا تھا کہ پلاسٹک کے معمولی ذرات کھانے سے آبی حیات اور مچھلی کے خاتمے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ تحقیق کے لیے حاصل کیے گئے نمونوں میں پائے گئے ذرات 50 اور 500 مائیکرومیٹر کے درمیان تھے جن میں سے عام اقسام میں پولی پروپیلین (پی پی) اور پولی تھیلین ٹیریفتھلیٹ (پی ای ٹی) شامل تھیں۔ سائنس دانوں کے مطابق نمونوں سے حاصل کیے گئے نتائج سے پتہ چلا کہ پیشاب میں پلاسٹک کے 10 گرام کے 20 معمولی ذرات پائے گئے۔ آسٹریا کی میڈیکل یونیورسٹی آف ویانا کے معروف محقق ڈاکٹر فلپ شوابے کا کہنا تھا کہ ‘تشویش یہ ہے کہ اس سے ہمارے لیے اور خاص کر معدے کے امراض میں مبتلا افراد کے لیے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں’۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘جانوروں میں پلاسٹک کی موجودگی کے حوالے سے تحقیق میں پتہ چلا کہ یہ ذرات انتڑیوں میں پائے جاتے ہیں، پلاسٹک کے معمولی ذرات گردش خون میں شامل ہوسکتے ہیں، یہ ذرات نظام تنفس اور جگر تک بھی پہنچ سکتے ہیں’۔ ڈاکٹر فلپ شوابے نے کہا کہ ‘اب ہمیں انسان کے اندر بھی پلاسٹک کے ذرات کے شواہد مل چکے ہیں اور اس کے انسانی صحت پر اثرات کے حوالے سے جاننے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے’۔

خیال رہے کہ تحقیق سے تاحال اس بات کا سراغ نہیں لگایا جاسکا کہ یہ پلاسٹک کے ذرات دراصل آتے کہاں سے ہیں۔ جن افراد پر تحقیق کی گئی وہ تمام پلاسٹک میں لپٹی ہوئی خوراک اور پینے کی چیزیں استعمال کرتے تھے، ان میں سے کوئی بھی سبزی خور نہیں تھا تاہم 6 افراد مچھلی کھاتے تھے۔ ایک اندازے  کے مطابق دنیا بھر میں پیدا ہونے والے پلاسٹک کا 5 فیصد حصہ سمندر میں جا ملتا ہے ۔

جہاں یہ بتدریج پگھلنا شروع ہوتا ہے اور آبی حیات اس کو کھاتی اور ہضم کرلیتی ہیں۔ محقیقین نے خدشے کا اظہار کیا کہ خوراک کی پلاسٹک میں پیکنگ اور اشیا کی تیاری کے لیے استعمال ہونے والے طریقہ کار سے پلاسٹک کے ذرات انسان کے اندر داخل ہوسکتے ہیں۔ جہاں اس تحقیق پر ماہرین کو تشویش ہے وہی کئی ماہرین اس کو زیادہ خطرناک نہیں سمجھتے ہیں اور ان کے مطابق یہ

عمل ہوتا رہا ہے۔ یاک یونیورسٹی کے ماہر ماحولیات پروفیسر الیسٹر بوکسل کا کہنا تھا کہ ‘میں ان نتائج سے حیران یا پریشان نہیں ہوں، پلاسٹک کے معمولی ذرات نلکے کے پانی، بوتل کے پانی، مچھلی مسل ٹشوز اور دیگر پینے کی اشیا میں شامل ہوتی ہیں’۔ خیال رہے کہ یہ تحقیق برطانیہ کے وزیر ماحولیات مائیکل گوف کی جانب سے حکومتی سطح پر پلاسٹک اسٹرا اور کاٹن بڈز کی تقسیم اور فروخت پر پابندی کے لیے مہم شروع کرنے کے لیے مشاورت کے آغاز کے چند گھنٹوں بعد سامنے آئی ہے۔

موضوعات:



کالم



افغانستان کے حالات


آپ اگر ہزار سال پیچھے چلے جائیں تو سنٹرل ایشیا…

پہلے درویش کا قصہ

پہلا درویش سیدھا ہوا اور بولا ’’میں دفتر میں…

آپ افغانوں کو خرید نہیں سکتے

پاکستان نے یوسف رضا گیلانی اور جنرل اشفاق پرویز…

صفحہ نمبر 328

باب وڈورڈ دنیا کا مشہور رپورٹر اور مصنف ہے‘ باب…

آہ غرناطہ

غرناطہ انتہائی مصروف سیاحتی شہر ہے‘صرف الحمراء…

غرناطہ میں کرسمس

ہماری 24دسمبر کی صبح سپین کے شہر مالگا کے لیے فلائیٹ…

پیرس کی کرسمس

دنیا کے 21 شہروں میں کرسمس کی تقریبات شان دار طریقے…

صدقہ

وہ 75 سال کے ’’ بابے ‘‘ تھے‘ ان کے 80 فیصد دانت…

کرسمس

رومن دور میں 25 دسمبر کو سورج کے دن (سن ڈے) کے طور…

طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے

وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…