پیر‬‮ ، 07 جولائی‬‮ 2025 

ہمارے کھانوں میں کس ’خطرناک چیز‘ کے ذرات شامل ہوتے ہیں؟

datetime 25  اکتوبر‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

برطانیہ(مانیٹرنگ ڈیسک) سائنس دانوں کو پہلی مرتبہ اس بات کا سراغ ملا ہے کہ انسان غذا کے ساتھ معدے میں پلاسٹک کے معمولی ذرات بھی اتار لیتے ہیں۔ برطانیہ اور دیگر ممالک کے شہریوں پر کی گئی تحقیق کے دوران حاصل کیے گئے نمونوں میں پلاسٹک کے معمولی ذرات کی 9 مختلف اقسام پائی گئیں۔ ویب سائٹ ایم ایس این کی رپورٹ کے مطابق ماہرین کا ماننا ہے کہ پلاسٹک کے ذرات

انسانوں کے اندر مدافعتی نظام کو نقصان پہنچانے اور وائرس پھیلانے کا باعث ہوسکتے ہیں۔ اسکائی میڈیا کی جانب سے دو سال قبل پلاسٹک کے حوالے سے مہم اوشین ریسکیو شروع کی تو اس حوالے سے خطرات کی تصدیق ہوئی جس کو اس لیے شروع کیا گیا تھا کہ پلاسٹک کے معمولی ذرات کھانے سے آبی حیات اور مچھلی کے خاتمے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ تحقیق کے لیے حاصل کیے گئے نمونوں میں پائے گئے ذرات 50 اور 500 مائیکرومیٹر کے درمیان تھے جن میں سے عام اقسام میں پولی پروپیلین (پی پی) اور پولی تھیلین ٹیریفتھلیٹ (پی ای ٹی) شامل تھیں۔ سائنس دانوں کے مطابق نمونوں سے حاصل کیے گئے نتائج سے پتہ چلا کہ پیشاب میں پلاسٹک کے 10 گرام کے 20 معمولی ذرات پائے گئے۔ آسٹریا کی میڈیکل یونیورسٹی آف ویانا کے معروف محقق ڈاکٹر فلپ شوابے کا کہنا تھا کہ ‘تشویش یہ ہے کہ اس سے ہمارے لیے اور خاص کر معدے کے امراض میں مبتلا افراد کے لیے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں’۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘جانوروں میں پلاسٹک کی موجودگی کے حوالے سے تحقیق میں پتہ چلا کہ یہ ذرات انتڑیوں میں پائے جاتے ہیں، پلاسٹک کے معمولی ذرات گردش خون میں شامل ہوسکتے ہیں، یہ ذرات نظام تنفس اور جگر تک بھی پہنچ سکتے ہیں’۔ ڈاکٹر فلپ شوابے نے کہا کہ ‘اب ہمیں انسان کے اندر بھی پلاسٹک کے ذرات کے شواہد مل چکے ہیں اور اس کے انسانی صحت پر اثرات کے حوالے سے جاننے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے’۔

خیال رہے کہ تحقیق سے تاحال اس بات کا سراغ نہیں لگایا جاسکا کہ یہ پلاسٹک کے ذرات دراصل آتے کہاں سے ہیں۔ جن افراد پر تحقیق کی گئی وہ تمام پلاسٹک میں لپٹی ہوئی خوراک اور پینے کی چیزیں استعمال کرتے تھے، ان میں سے کوئی بھی سبزی خور نہیں تھا تاہم 6 افراد مچھلی کھاتے تھے۔ ایک اندازے  کے مطابق دنیا بھر میں پیدا ہونے والے پلاسٹک کا 5 فیصد حصہ سمندر میں جا ملتا ہے ۔

جہاں یہ بتدریج پگھلنا شروع ہوتا ہے اور آبی حیات اس کو کھاتی اور ہضم کرلیتی ہیں۔ محقیقین نے خدشے کا اظہار کیا کہ خوراک کی پلاسٹک میں پیکنگ اور اشیا کی تیاری کے لیے استعمال ہونے والے طریقہ کار سے پلاسٹک کے ذرات انسان کے اندر داخل ہوسکتے ہیں۔ جہاں اس تحقیق پر ماہرین کو تشویش ہے وہی کئی ماہرین اس کو زیادہ خطرناک نہیں سمجھتے ہیں اور ان کے مطابق یہ

عمل ہوتا رہا ہے۔ یاک یونیورسٹی کے ماہر ماحولیات پروفیسر الیسٹر بوکسل کا کہنا تھا کہ ‘میں ان نتائج سے حیران یا پریشان نہیں ہوں، پلاسٹک کے معمولی ذرات نلکے کے پانی، بوتل کے پانی، مچھلی مسل ٹشوز اور دیگر پینے کی اشیا میں شامل ہوتی ہیں’۔ خیال رہے کہ یہ تحقیق برطانیہ کے وزیر ماحولیات مائیکل گوف کی جانب سے حکومتی سطح پر پلاسٹک اسٹرا اور کاٹن بڈز کی تقسیم اور فروخت پر پابندی کے لیے مہم شروع کرنے کے لیے مشاورت کے آغاز کے چند گھنٹوں بعد سامنے آئی ہے۔

موضوعات:



کالم



وائے می ناٹ(پارٹ ٹو)


دنیا میں اوسط عمر میں اضافہ ہو چکا ہے‘ ہمیں اب…

وائے می ناٹ

میرا پہلا تاثر حیرت تھی بلکہ رکیے میں صدمے میں…

حکمت کی واپسی

بیسویں صدی تک گھوڑے قوموں‘ معاشروں اور قبیلوں…

سٹوری آف لائف

یہ پیٹر کی کہانی ہے‘ مشرقی یورپ کے پیٹر کی کہانی۔…

ٹیسٹنگ گرائونڈ

چنگیز خان اس تکنیک کا موجد تھا‘ وہ اسے سلامی…

کرپٹوکرنسی

وہ امیر آدمی تھا بلکہ بہت ہی امیر آدمی تھا‘ اللہ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

دیوار چین سے

میں دیوار چین پر دوسری مرتبہ آیا‘ 2006ء میں پہلی…

شیان میں آخری دن

شیان کی فصیل (سٹی وال) عالمی ورثے میں شامل نہیں…

شیان کی قدیم مسجد

ہوکنگ پیلس چینی سٹائل کی عمارتوں کا وسیع کمپلیکس…

2200سال بعد

شیان بیجنگ سے ایک ہزار اسی کلومیٹر کے فاصلے پر…