لند ن(نیوزڈیسک)برطانوی جریدے ”اکانومسٹ“ نے پاکستانی معاشی ترقی پرانتہائی حوصلہ افزا رپورٹ میں کہا ہے کہ فروغ پزیر اسٹاک مارکیٹ ، مستحکم کرنسی اور کم افراط زر تلاش کرنے والوں کو یہ اقتصادی ماحو ل پاکستان میں عموماً نظر نہیں آتا ، کاروباری مواقع کے ذرائع کی بجائے پاکستان کو عدم استحکام کے ایک گڑھے کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔ اس تاثر کے باوجود پاکستانی معیشت امید کے ایک نایاب دور کی بلندیوں کو چھو رہی ہے۔آئی ایم ایف کے تخمینے کے مطابق پاکستانی معاشی نمو میںآئندہ برس 4.7 فی صد کی شرح سے اضافہ ہو گا جو گزشتہ آٹھ برس میں تیز ترین شرح ہو گی۔ ایک سال میں مارچ تک کنزیومر پرائس میں دو عشاریہ پانچ فی صد اضافہ ہوا جو گزشتہ ایک دہائی سے زیادہ کے عرصے میں کم تر اضافہ ہے۔رواں برس مرکزی بینک نے دو بار شرح سود میں کمی کی۔ کچھ اشارے اخراجات میں مثبت تبدیلیاں لانے کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔گزشتہ برس کے مقابلے سیمنٹ کی فروخت میں 5عشاریہ5 فی صد اضافہ ہے جس سے ملک میں فروغ پاتی تعمیراتی صنعت کا اندازہ ہوتا ہے۔اسی عرصے کے دوران کاروں کی فروخت 22 فیصد اضافہ ہوا۔ تیل کی قیمتوں میں چالیس فی صد ( پانچ میں سے دو حصے) کمی کی گئی جو پاکستان جیسے ملک کے شہریوں کے لئے بہت بڑا ریلیف ہے ۔پاکستان میں بجلی کی فراہمی کا انحصار چالیس فی صد درآمد ی ایندھن پر ہے اور متواتر سے توازن کی ادائیگیوں کے بحران کا شکار ہے ملک کے درآمد ی بل کو غیر ملکی زر مبادلہ سے مغلوب کیا جاسکتا ہے جو آسانی سے ٹیکسٹائل برآمدات اور مشرق وسطی اور یورپ میں پاکستانیوں کی طرف سے ترسیلات زر سے ممکن ہے۔ 2013-14 میں پاکستان کا تیل کا درآمدی بل 12 ارب ڈالر رہا جو جی ڈی پی کا 5 فیصد ہے۔آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ اگر تیل کی قیمتوں میں کمی رہی تو پاکستان آئندہ تین برس میں بارہ ارب ڈالر بچایا جاسکتا ہے۔ یہ رقم دیگر شعبوں پر خرچ کر کے ملک میں خوشحالی لائی جا سکتی ہے۔نواز شریف حکومت کو معیشت کے نئے استحکام کا کریڈٹ جاتا ہے۔اقتدار میں آنے کے بعد نواز حکومت نے آئی ایم ایف کے پروگرام سے اتفاق کیا۔ غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں دگنا اضافہ ہواجو 17 عشاریہ 7ارب ڈالر ہو گئے ہیں۔ بجلی کے ٹیرف میں اضافہ کیا گیا۔ کچھ غیر ادا شدہ بلوں کی وصولی سے تقسیم کار کمپنیوں پر مالی بوجھ میں کمی ہو ئی۔ٹیکس کا دائرہ کار وسیع کرنے اور کٹوتی کرنے سے ٹیکس دہندگان میں اضافہ ہوا۔ ریونیو ایجنسی(ایف بی آر)نے غیر دہندگان کو ایک لاکھ پچاس ہزار سے زائد ٹیکس نوٹس جاری کیے ۔ مزید کوبالواسطہ ٹیکس نیٹ میں لانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔آئندہ مالی سال بجٹ میںبجٹ خسارے کو جی ڈی پی کا چار فی صد لانے کا ہدف ہے اس وقت بجٹ خسارہ آٹھ فی صد ہے۔ جون میں روکی گئی نجکاری کے عمل کا دوبارہ اپریل میں آغاز کیا گیا،اور حبیب بینک کی ایک ارب ڈالر میں نج کاری کی گئی۔ تین چوتھائی غیر ملکی سرمایہ کاروں نے بولی میں حصہ لیا۔ پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ کا حجم 2012 سے ڈالر کے لحاظ سے دگنا ہو گیا جس میں زیادہ ترغیر ملکی دلچسپی دیکھنے میں آئی۔ پاکستان آنے والوں کو سڑکوں کا بہترین جال اور مضبوط کاروباری کلچر دیکھ کر حیرانی ہوئی۔عالمی بینک کی آسان کاروبار درجہ بندی میں پاکستان کا بھارت کے مقابلے میں مقام بلند رہا۔اسٹاک بروکر کے مطابق بڑے فاسٹ فوڈ چینز کے لئے بنیادی ڈھانچہ کافی مضبوط ثابت ہوا۔معاشی نمو اسی رفتار سے رہی توپاکستان کو غربت میں کمی کے لئے پانچ سے سات برس کا عرصہ لگے گا،بجلی کی قلت ایک مسئلہ بنا ہوا ہے۔پاکستان کی برآمدات کا نصف سے زائد حصہ رکھنے والا ٹیکسٹائل سیکٹر طویل عرصے سے اپنی بجلی خود بنا رہا ہے۔