اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) سابق ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز انٹیلی جنس (ڈی جی آئی ایس آئی) ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی نے کہا ہے کہ پاکستان میں فالٹ لائنز ایک طویل عرصے سے موجود ہیں اور عمران خان پر قاتلانہ حملے کے بعد ’مجھے یقین نہیں ہے کہ یہ اب مزید گہرے ہو گئے ہیں‘۔روزنامہ جنگ میں صالح ظافر کی خبر کے مطابق ایک بھارتی روزنامے کو انٹرویو دیتے ہوئے اس
سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ عمران پر قاتلانہ حملے نے پاکستان میں فالٹ لائنز کو مزید گہرا کر دیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ فالٹ لائنز ایک طویل عرصے سے موجود ہیں اور مجھے یقین نہیں ہے کہ یہ اب مزید گہرے ہو گئے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ قبل از وقت انتخابات درحقیقت عمران خان کا مطالبہ ہے لیکن جو لوگ اقتدار میں ہیں وہ اگلے سال اکتوبر میں ہونے تک انتظار کرنا پسند کرتے ہیں۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے انہیں کچھ سخت اقدامات اٹھانے پڑے جنہوں نے عمران خان کے حق میں کام کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اگرچہ یہ ان کا دور اقتدار تھا جس نے بنیادی طور پر اقتصادی میدان میں کچھ سنگین نقصان پہنچایا تھا۔ جنرل درانی نے کہا کہ موجودہ حکومت اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ اگلے چند مہینوں میں یہ کچھ مثبت نتائج دکھانے کے قابل ہوجائے گی۔
ان سے پوچھا گیا کہ آپ کے خیال میں عمران خان، جو کبھی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے زیر حمایت تھے، چیلنج کرنے والے کیسے بن گئے؟ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ نے یاد دلایا کہ فوج کے تمام زیر حمایت، ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف، جو پہلے دو تھے، اس کے چیلنجر بن گئے تھے۔
اسد درانی نے کہا کہ سال کے شروع میں جب پارلیمنٹ میں شکست کو ٹالنے کے لیے فوج نے عمران خان کی مدد کرنے سے انکار کیا تو وہ بھی اسی راستے پر چل پڑے۔ تاہم اس بار لوگوں کے مزاج کا اندازہ لگاتے ہوئے، کہ ان کے پاس یہ ’گیمز آف تھرون‘ کافی ہے، عمران نے ان کے اینٹی اسٹیبلشمنٹ اور امریکہ مخالف جذبات کو کیش کیا ہے۔ عمران خان نے جان لیوا حملے کی کوشش کا الزام شہباز شریف پر لگانے کے علاوہ ایک آئی ایس آئی جنرل کا نام بھی لیا ہے۔
ان سے پوچھا گیا کہ کیا یہ فلیش پوائنٹ نہیں ہے؟ ریٹائرڈ جنرل نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ پاک فوج کا سیاسی کردار زندگی سے بڑا رہا ہو لیکن یہ شاید ہی کبھی موثر کنٹرول میں تھی سوائے اس کے جب اس نے براہ راست حکومت کی۔ اور مجھے نہیں معلوم کہ عمران نے آئی ایس آئی کے ایک جنرل کا نام کیوں لیا۔
درانی کی توجہ اس مفروضے کی جانب مبذول کرائی گئی کہ یہ واضح ہے کہ عمران خان نے اپنی مقبولیت اور بھیڑ جمع کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے جنگ کو تیز کیا ہے اور جان کی بازی لگادی ہے۔ عمران اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان مفاہمت کے امکان کے بارے میں ان کے تبصرے لئے گئے کہ ڈیڈ لاک کو توڑنے کا یہی ایک طریقہ ہے۔
جنرل نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کچھ بیک چینلز کھلے رکھے ہوئے ہیں لیکن اندازہ نہیں ہے کہ آیا یہ تعطل کو توڑنے میں مدد کریں گے۔ ڈی جی آئی ایس آئی کی پریس کانفرنس کو بے مثال اقدام قرار دیتے ہوئے ان سے پوچھا گیا کہ ان کے اور آرمی چیف جنرل باجوہ کے درمیان کیا غلط ہوا؟
انہوں نے کہا کہ انہیں بھی حیرت ہوئی لیکن پھر عین ممکن ہے کہ عمران کے اقتدار سے محروم ہونے اور محاذ آرائی کا راستہ اختیار کرنے کے بعد ان کے اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان رنجش عروج پر پہنچ گئی۔ اس ماہ کے آخر میں جنرل قمر جاوید باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد نئے آدمی کو سول ملٹری توازن کو برقرار رکھنے میں دشواری سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ نے کہا کہ ’توازن‘ زیادہ تر وقت فوج کے حق میں تھا۔