اسلام آباد(نیوزڈیسک) قطب جنوبی میں براعظم انٹارکٹیکادنیا کا آخری کنارہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ انتہائی سرد علاقہ ہے جہاں ہزاروں کلومیٹر پر محیط برف کی تہیں جمی ہوئی ہیں۔ یہ علاقہ کسی بھی طرح انسانی زندگی کے لیے موزوں نہیں لیکن تحقیق کی غرض سے سائنسدان یہاں کا رخ کرتے ہیں۔ اب بھی کچھ سائنسدان وہاں مقیم ہیں۔ آپ کے ذہن میں بھی یقیناًیہی سوال اٹھ رہا ہو گا کہ وہ سائنسدان وہاں کس طرح زندہ رہتے ہیں۔ دنیا کے آخری کنارے پر مقیم ان سائنسدانوں نے گزشتہ دنوں سماجی رابطے کی ویب سائٹ Redditپر صارفین کے ایسے ہی سوالات کے جوابات دیئے جس میں انہوں نے وہاں اپنی زندگی کے معمولات کے بارے میں بتایا۔انہوں نے بتایا کہ ’’ہم اس وقت کل 13افراد یہاں موجود ہیں جن میں 3خواتین اور10مرد شامل ہیں۔ دنیا کے اس آخری کونے کا اوسطاً درجہ حرارت منفی 70ڈگری سینٹی گریڈ ہے اور جس جگہ ہم موجود ہیں یہاں ہمارے چاروں طرف 1ہزار کلومیٹر تک برف کی تہہ جمی ہوئی ہے۔ ہم سے 600کلومیٹر دور ایک اور بیس ہے، وہاں بھی کچھ سائنسدان موجود ہیں جو تحقیق کے لیے آئے ہوئے ہیں۔ ہمیں یہاں آئے ہوئے 4ماہ ہو گئے ہیں اور اس عرصے کے دوران ہم نے ایک بار بھی سورج نہیں دیکھا۔‘‘ سائنسدانوں نے ایک صارف کے انٹرنیٹ کی دستیابی کے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’ہمیں سیٹلائٹ کے ذریعے انٹرنیٹ مل رہا ہے لیکن اس کی سپیڈ صرف 512کلو بائٹ فی سیکنڈ ہے، ہم یہ انٹرنیٹ اپنے ذاتی کمپیوٹروں پر استعمال نہیں کر سکتے، یہاں ہمارے پاس صرف 2کمپیوٹر ایسے ہیں جن پر انٹرنیٹ کی سہولت میسر ہے۔‘‘بجلی کے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے سائنسدانوں نے کہا کہ ’’یہاں ہم ڈیزل جنریٹرز کے ذریعے بجلی پیدا کرتے ہیں۔ بجلی پیدا کرنے کے اس عمل میں جنریٹرز کی تپش سے ہمارے کمپاؤنڈز میں بھی سردی کی شدت کم ہو جاتی ہے۔ یہاں ڈیزل صرف گرمیوں میں پہنچایا جاتا ہے کیونکہ سردیوں میں یہاں نقل و حمل ناممکن ہو جاتی ہے۔‘‘
سائنسدانوں نے بتایا کہ ’’ہمارے پاس ایک واٹرری سائیکلنگ مشین ہے جس کے ذریعے ہم پانی کو اپنے لیے قابل استعمال بناتے ہیں، برف کو پگھلا کر بھی یہاں پانی حاصل کیا جاتا ہے۔ ہم ہر روز کمپاؤنڈ سے باہر جاتے ہیں اور 2کلومیٹر کے دائرے میں ہم نے جو آلات نصب کر رکھے ہیں ان کی نگرانی کرتے ہیں۔ یہ تمام سفر ہم پیدل کرتے ہیں۔ ہم نے ایک خصوصی سائنسی لباس پہن رکھا ہوتا ہے جو ہمارے جسم کو 8ڈگری سینٹی گریڈ تک گرم رکھتا ہے۔یہاں موجود ہم تمام لوگوں نے ایسی گھڑیاں(Activity Watches)پہن رکھی ہیں جن کی مدد سے ہمارے دیگر ساتھی ہماری نقل و حرکت اور معمولات سے آگاہ رہتے ہیں۔ ہم ان گھڑیوں کی مدد سے معلوم کر سکتے ہیں کہ ہمارا کون سا ساتھی اس وقت کیا کر رہا ہے۔ ‘‘ سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ ’’ہم فارغ وقت میں سکائپ کے ذریعے مختلف سائنسی تحقیقاتی اداروں یا اپنے گھروالوں سے بات چیت کرتے ہیں اور یا پھر صفائی ستھرائی کا کام کرتے ہیں۔ اب ہم انٹارکٹیکا میں مختلف بیسز پر موجود سائنسدانوں کے مابین ڈارٹس کا ایک ٹورنامنٹ کروانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔‘‘ ایک صارف کے سوال کے جواب میں سائنسدانوں نے بتایا کہ’’یہاں موجود کسی مرد اور خاتون کے مابین کوئی جنسی تعلق استوار ہونا مشکل ہے کیونکہ یہاں گروپس کے افراد کی تعداد اس قدر کم ہوتی ہے کہ ایسے تعلقات کو دیگر افراد سے چھپانا تقریباً ناممکن ہے۔‘‘
دنیا والوں سے بے حد دور دنیا کے کنارے پر مقیم 13 مرد و خواتین کا گروپ!
27
اگست 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں