نارتھ کیرولینا(نیوز ڈیسک) سائنسدانوں نے الٹی کرنے والا روبوٹ تیار کرلیا ہے جس کے ذریعے جراثیم اورانفیکشن پھیلنے کے عمل کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ زہرخورانی (فوڈپوائزننگ) کے عمل میں مریض نورووائرس کےشکار ہوتے ہیں اوریہ وائرس زوردارالٹیوں کے ذریعے دورتک پھیل کرمزید افراد کو متاثروبیمار کرتا ہے کیونکہ الٹی کے ذریعے اس کے ذرات ہوا میں شامل ہوکر دور دور تک پھیلتے ہیں اور دوسرے لوگوں کو بھی بیمار کرتے ہیں۔
امریکی ماہرین کی جانب سے تیار کردہ اس روبوٹ کو الٹی مشین بھی کہا جاسکتا ہے اس میں انسانی پیٹ کا ایک چوتھائی ماڈل، منہ اور غذائی نالی بنائی گئی ہے جس میں انسانی قےجیسا ایک مادہ بھرا جاتا ہے جس میں بے ضرر وائرس شامل کیے جاتے ہیں جو انسانی نورووائرس کی جگہ استعمال ہوئے ہیں اس پورے نظام کو شیشے کے ایک بکس میں بند کیا گیا ہے جس میں خاص سینسر فضا میں ا?نے والے وائرس کو نوٹ کرتے ہیں۔
خلائی جہاز کسینی نے زحل کی حیرت انگیز تصاویر بھیج دیں
نیویارک(نیوز ڈیسک) خلائی جہاز کیسینی نے اپنے مشن کے آخری مرحلے میں سیارہ زحل کے چاند کی قریب سے لی ہوئی دلچسپ اور حیرت انگیز تصاویر بھیجی ہیں جسے دیکھ کر سائنس دان حیران اور جذباتی ہوگئے۔
کیسینی اپنے سفر کے دوران زحل کے 11 سالہ دورے کے دوران چاند ”ڈائیونی“ کی دھبے دار سطح سے 500 کلومیٹر کے فاصلے سے گزرا اور اس کی بہت قریب سے تصاویر لیں جب کہ یہ اس خلائی جہاز کا اس قسم کا پانچواں چکر تھا۔ کیسینی اپنی آخری مشاہداتی کارروائیاں سرانجام دے رہا ہے اور 2017 میں یہ خود کو تباہ کرنے کے لیے زحل کی فضا میں غوطہ لگا دے گا۔
اس مشن کی تصاویر پر کام کرنے والی ٹیم کی سربراہ کیرولین پورکو کا کہنا ہے کہ وہ اس کی تصاویر دیکھ کر حیران رہ اور جذباتی ہوگئی تھیں اور وہ جانتی ہیں کہ ڈائیونی اور اس کی سطح کی ایسی نادر تصاویر دیکھ کر باقی سب لوگ بھی جذباتی ہو جائیں گے، خاص طور پر یہ جانتے ہوئے کہ زمین سے اتنی دور اس سیارے کی ایک طویل عرصے تک یہ آخری تصاویر ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان آخری تصاویر تک کیسینی نے انتہائی قابلِ اعتماد اور نادر معلومات فراہم کی ہیں۔
اس سے قبل ڈائیونی کے قریب جانے کی کوشش 2011 میں کی گئی تھی جب امریکی، یورپی اور اطالوی خلائی ایجنسی کا یہ جہاز اس چاند کے 100 کلومیٹر قریب تک پہنچ گیا تھا۔ ڈائیونی کی چوڑائی 1122 کلومیٹر ہے اور اس کی بیرونی سطح برفانی اور اندرونی سطح پتھریلی ہے۔ کیسینی کو ڈائیونی کی فضا میں کم مقدار میں آکسیجن بھی ملی ہے اور کچھ ایسے اشارے بھی ملے ہیں کہ شاید اس کا اندرونی حصہ ابھی تک متحرک ہو کیوں کہ اس کی سطح پر موجود بعض جغرافیائی مظاہر اندرونی عمل کی وجہ سے تبدیل ہو چکے ہیں۔
آئندہ سال کیسینی اپنے آپ کو زحل کے مدار میں داخل کرے گا اور بتدریج اس سیارے کے حلقوں کے اندر چلا جائے گا پھر جب 2017 میں جیسے ہی اس طیارے کا ایندھن ختم ہو جائے گا تو زمینی کنٹرولر اسے سیارے کی فضا میں غوطہ لگانے کی کمانڈ دیں گے جہاں یہ تباہ ہو جائے گا۔
جیسے ہی کیسینی سیارہ زحل کی جانب بڑھے گا تو یہ بہت زیادہ گرم ہو کر پگھلنے لگے گا اور شدید دباو¿ کی وجہ سے تباہ ہو جائے گا۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس مشن کے اس طرح سے اختتام کا مطلب ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کا کہ کیسینی کا ملبہ کسی بھی طور پر زحل کے دوسرے 2 چاندوں ٹائٹن اور اینسیلیڈس پر نہ گر سکے۔
امریکی سائنس دانوں نے جراثیم پھیلنے کے عمل کوسمجھنے کیلیے روبوٹ تیار کرلیا
23
اگست 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں