پیر‬‮ ، 04 اگست‬‮ 2025 

بے روزگاری، مہنگائی، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ، شرح سود اور ملکی قرضوں میں اضافہ

datetime 9  جون‬‮  2022
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (این این آئی) وفاقی حکومت کی جانب سے اقتصادی سروے پیش کردیاگیا ہے جس کے مطابق بے روزگاری، مہنگائی، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ، شرح سود اور ملکی قرضوں میں اضافہ ہوا ، جی ڈی پی، زراعت، خدمات اور صنعتی شعبے کے اہداف حاصل کرلیے گئے،

بچت، سرمایہ کاری سمیت گندم اور کپاس کے پیداواری اہداف بھی حاصل نہیں ہوسکے،براہ راست سرمایہ کاری 1.6 فیصد کمی کیساتھ 455.6 ارب ڈالر ریکارڈ کی گئی، رواں مالی سال کے دوران مارچ کے آخر تک کل سرکاری قرضہ 44 ہزار 366 ارب روپے تک پہنچ گیا ، جولائی سے اپریل 2022 کے دوران تیل کا درآمدی بل 95.9 ارب ڈالر کے ساتھ 17 ارب 3 کروڑ ڈالر رہا جبکہ وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان ڈیفالٹ ہونے بچ گیا ہے،زرمبادلہ دس ارب ڈالر سے کم ہو گئے ہیں تاہم اگلے ہفتے چین سے 2.5 ارب ڈالر مل جائیں گے جو بارہ ارب ڈالر کی سطح پر پہنچ جائیں گے، خان صاحب نے جانے سے پہلے پیٹرول ڈیزل سستا کرکے عوام کو ایسا چیک لکھ کر دیا جس کیلئے کیش تھا ہی نہیں، بارودی سرنگیں صرف حکومت کے لیے نہیں ملک کیلئے تھیں،عمران حکومت نے بجلی پیدا کرنے کے کیلئے ایندھن نہیں خریدا جس کی وجہ سے ملک میں لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے اور عمران حکومت میں ملک کا تجارتی خسارہ، جاری کھاتوں کا خسارہ اور بیرون سرمایہ کاری نواز لیگ کے گذشتہ دور سے زیادہ رہی،سابق حکومت نے 5000 ارب روپے کا بجٹ خسارہ چھوڑا جو ن لیگ کے گذشتہ دور سے تین گنا زیادہ ہے ،نواز لیگ کے دور میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح 11.1 فیصد تھی جو سابقہ دور میں 8 فیصد پر آگئی،

اب استحکام کے راستے پر گامزن ہیں اور جلد مستحکم نمو دیکھیں گے۔ جمعرات کو وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل، وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال، وفاقی وزیر بجلی خرم دستگیر خان، وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا نے مشترکہ پریس کانفرنس میں اقتصادی سروے جاری کیا۔ اقتصادی سروے 2021-22 کے مطابق مالی سال 2022 میں خام قومی پیداوار کی شرح نمو میں 5.97 فیصد اضافہ ہوا تاہم اب بھی بنیادی

کلیاتی معیشت عدم توازن کا شکار ہے مزید ملکی اور بین الاقوامی غیر یقینی حالات کی وجہ سے معیشت کو عدم استحکام کا سامنا ہے،پاکستان کی معیشت نے کورونا وبا (مالی سال 2020 میں 0.94 فیصد سکڑائو) کے باوجود بحالی کی طرف پیش قدمی جاری رکھی اور گزشتہ مالی سال 2021 میں شرح نمو 5.74 فیصد رہی۔ دنیا جو کہ ابھی کووڈ19-کے اثرات سے نکلنے کی کوشش کر رہی تھی امیکرون کے پھیلائو ، افغانستان میں حکومت کی

تبدیلی اور روس-یوکرین کے درمیان تنازع کی وجہ سے اس کی معاشی صورت حال غیر یقینی کا شکار ہے۔ مالی سال 2022میں خام قومی پیداوار موجودہ منڈی کی قیمتوں پر 66,950 بلین روپے رہی جو کہ گزشتہ سال 55796بلین روپے تھی اس طرح اس میں 20.0 فیصد اضافہ ہوا۔ جبکہ ڈالر کی اصطلاح میں یہ اضافہ 383 بلین ڈالر ہے۔ مالی سال 2022 میں فی کس آمدنی 1798ڈالر ریکارڈ کی گئی جو کہ خوشحالی میں بہتری کی عکاسی

کرتی ہے۔مالی سال 2022 میں بچت-سرمایہ کاری کے درمیانی فرق میں اضافہ ہوا۔ جولائی تا اپریل 2022 میں کرنٹ اکائونٹ خسارہ 13.8بلین ڈالر رہا جبکہ گزشتہ سال اسی عرصے کے دوران کرنٹ اکائونٹ خسارہ 0.5بلین ڈالر تھا۔ مالی سال 2022 میں سرمایہ کاری کے لحاظ سے خام قومی پیداوار کا تناسب 15.1فی صد رہا جبکہ مالی سال 2021 میں یہ 14.6 فیصد تھا۔ نیشنل اکائونٹس کے اعدادا و شمار کے مطابق مالی سال 2022میں اشیا اور

خدمات کی برآمدات میں 39 فیصد اضافہ ہوا جبکہ اشیا اور خدمات کی درآمدات میں 46 فیصد اضافہ ہوا۔زراعت کے شعبے میں شرح نمو 4.4 فیصد شرح رہی جس کی بنیادی وجہ فصلوں میں 6.6 فیصد اور لائیوسٹاک میں 3.3فیصد اضافہ ہے۔ اہم فصلوں میں 7.2 فیصد، دیگر فصلوں میں 5.4 فیصد اور کاٹن جننگ کے شعبے میں 9.2 فیصد شرح نمو کی وجہ سے فصلوں میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ زراعت کے دیگر شعبوں جنگلات اور ماہی گیری

میں بالترتیب6.1 فیصد اور 0.3فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ صنعتی شعبے میں مالی سال 2022 میں 7.2 فیصد کی نمو ریکارڈ کی گئی جبکہ گذشتہ مالی سال 2021 میں صنعتی شعبے کی کارکردگی میں 7.8 فیصد اضافہ ہوا۔ بڑے پیمانے پر اشیا سازی کا صنعت میں 65.0 فیصد حصہ ہے۔ کان کنی اور کھدائی کے شعبہ میں منفی4.5 فیصد شرح نمو جبکہ بجلی، گیس اور پانی کی فراہمی کے ذیلی شعبہ جات میں 7.9فیصد شرح نمو میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

تعمیراتی شعبہ میں 3.1 فیصد شرح نمو میںاضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ خدمات کے شعبہ میں شرح نمو میں 6.2فیصد کے اضافے کے ساتھ تھو ک و خوردہ تجارت کے کاروبار میں 10فیصد، ٹرانسپورٹیشن اور اسٹوریج کے شعبہ جات میں 5.4 فیصد، رہائش اور کھانے کی خدمات کی سرگرمیوں میں 4.1 فیصد، انشورنس اور مالیات میں 4.9 فیصد ترقی رہی۔ اراضی کی خرید و فروخت کی سرگرمیوں میں 3.7 فیصد ، تعلیم کے شعبہ میں 8.7 فیصد ، صحت اور

سماجی کاموں میں 2.2 فیصد جبکہ دیگر نجی خدمات میں 3.8 فیصد شرح نمو میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ مالی سال2021-22 کے دوران زراعت کے شعبے کی شرح نمو 4.40 فیصدپر حوصلہ افزا رہی ہے جو کہ موجودہ سال کے 3.5 فیصد ہدف اور گزشتہ سال کی شرح نمو 3.48سے زیادہ ہے۔ مالی سال 2021-22 کے دوران کپاس کی پیداوار گزشتہ سال کی 7.064 ملین گانٹھوں کے مقابلے میں 8.329 ملین گانٹھیں پیدا ہوئیں اور اس کی

پیداوار میں 17.9 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا۔ مالی سال 2021-22 کے دوران چاول کی پیداوار 9.323 ملین ٹن رہی جو کہ گزشتہ سال کی 8.420ملین ٹن پیدوار سے 10.7فیصد زیادہ رہی۔مالی سال2021-22 کے دوران گنے کی پیداوار 88.651 ملین ٹن رہی جو کہ گزشتہ سال گنے کی پیداوار 81.009 ملین ٹن پیداوار سے 9.4 فیصدزیادہ رہی ۔ مالی سال2021-22 کے دوران مکئی کی پیداوار گزشتہ سال کی8.940 ملین ٹن پیداوار کے

مقابلے میں 10.635 ملین ٹن رہی لہذا مکئی کی پیداوار میں19.0 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا۔ مالی سال 2021-22 کے دوران گندم کی پیداوار 26.394 ملین ٹن ریکارڈ کی گئی جو کہ گذشتہ سال میں 27.464 ملین ٹن تھی لہذا اس میں 3.9 فیصدکی کمی دیکھی گئی۔دیگر فصلیں جن کا زرعی قدر اضافہ میں حصہ 13.86فیصد اورGDP میں 3.14 فیصد ہے انکی شرح نمو میں 5.44 فیصد کا اضافہ ہوا۔ جس کی وجہ دالیں (29.82 فیصد)، روغنی

بیجوں 24.75)فیصد(، سبزیوں 11.52) فیصد(پھلوں (1.53فیصد) اور چارہ (0.36 فیصد) کی پیداوار میں اضافہ ہے۔ گلہ بانی جن کا زرعی قدر اضافہ میں حصہ 61.89 فیصد اورGDP میں حصہ 14.04 فیصد ہے اس کی شرح نمو پچھلے سال کی 2.38 فیصدشرح نمو کے مقابلے میں 3.26 فیصد رہی۔ ماہی گیری کا شعبہ جس کا زرعی قدر کے اضافہ میں حصہ 1.39 فیصد اور GDP میں حصہ 0.32 فیصد ہے اس کی شرح نمو میں 0.35

فیصد اضافہ ہوا ، جبکہ اس کے مقابلے میں گزشتہ سال کے اسی عرصہ میں اس شعبے کی شرح نمو 0.73 فیصد تھی۔ جنگلات کا شعبہ جس کا زراعت میں حصہ 2.14 فیصد ہے اور GDPمیں حصہ 0.49 فیصد ہے اس کی شرح نمو میں 6.13 فیصد اضافہ ہوا۔ جبکہ اس کے مقابلے میںپچھلے سال کے اسی عرصہ میں اس شعبہ کی شرح نموم منفی 0.45 فیصد تھی۔مالی سال2021-22 کے دوران چنے کی پیداوار 319 ہزار ٹن رہی، لہذا چنے کی

پیداوار میںپچھلے سال کے مقابلے میں 36.3 فیصداضافہ ریکارڈ کیا گیا جو کہ موسم کی بہتر صورتحال اور بہتر بیج کی دستیابی کی وجہ سے ہوا۔ مالی سال2021-22 کے دوران مرچوں، آلو اور مونگ کی پیدوارمیں بالتریب 36.6، 35.1، 29.0 فیصد کا اضافہ ہوا۔ تاہم ماش اور پیاز کی پیداوار میںبالترتیب 11.6اور 8.5 فیصد کی کمی واقع ہوئی۔ جبکہ گزشتہ سال کے مقابلہ میں مسور کی پیداوار ایک جیسی رہی۔مالی سال 2021-22 (جولائی تا

مارچ) کے دوران تقریبا 778.2 ہزار ٹن خریف /ربیع کی فصلوں کے بہتر بیج مہیاکئے گئے۔ مالی سال 2021-22 (جولائی تا مارچ) کے دوران زراعت کے قرض دینے والے اداروں نے 958.3 بلین روپے کی رقم تقسیم کی ہے جو گزشتہ سال کی اسی مدت کے دوران 953.7 ارب روپے کی تقسیم کے حساب سے 0.5فیصد زیادہ ہے۔ خریف 2021کی فصلوں کے لیے پانی کی کل دستیابی 65.08 ملین ایکڑ فٹ ((MAF ریکارڈ کی گئی جو کہ

خریف 2020 کی نسبت 0.05 فیصدکم رہی۔ربیع 2021-22 کے دوران پانی کی کل دستیابی 27.42 ملین ایکڑ فٹ ریکارڈ کی گئی جوکہ ربیع 2020-21 سے 12 فیصد کم ہے۔ مالی سال 2021-22(جولائی تا مارچ) کے دوران کھاد کی ملکی پیداوار میں گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں پیداوار 1.9فیصد کا اضافہ ہوا جس کی بنیادی وجہ FatimaFert اور Agritech اضافی گیس کی فراہمی ہے۔ جبکہ کھاد کے استعمال میں 6.2فیصد

کم ہوئی۔ جولائی تا مارچ مالی سال 2022 کے دوران بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ(ایل ایس ایم) کی شرح نمو میں 0.4 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ پچھلے سال کی اسی مدت میں شرح نمو 4.2 فیصد تھی۔صنعت سے متعلق اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ فرنیچر کی مصنوعات میں سب سے زیادہ اضافہ 301.8 فیصد، لکڑی کی مصنوعات 157.5 فیصد، آٹو موبائل 54.1 فیصد، دوسری صنعت سازی (فٹ بالز) 37.8 فیصد،

ملبوسات(Wearing Apparel) 34.0 فیصد، لوہے اور سٹیل 16.5 فیصد، تمباکو 16.7 فیصد، خوراک 11.7 فیصد، مشینیں اور آلات 8.9 فیصد، کیمیکلز 7.8 فیصد، ٹیکسٹائل 3.2 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ اس عرصہ کے دوران جن شعبوں میں منفی نمو ریکارڈ کی گئی ان میں ربڑ کی مصنوعات 20.6 فیصد، دوسری نقل و حمل آلات 10.2 فیصد، فیبری کیٹڈ دھات 7.2 فیصد، برقی آلات 1.1 فیصد، دواسازی 0.4 فیصد رہی۔کان کنی اور سنگ کنی کے

شعبے میں مالی سال 2022 کے دوران 4.5 فیصد کمی ہوئی جبکہ پچھلے سال یہ شرح مثبت 1.2 فیصد رہی۔کوئلہ، قدرتی گیس، کرومائیٹ، خام تیل اور بیریٹس میں بالترتیب 4.5، 25.7، 8.3 اور 162.5 فیصد اضافہ واقع ہوا تاہم چند معدنیات کی نمو زیر جائزہ عرصہ میں منفی رہی جیسے میگنی سائٹ 52.3 فیصد، جپسم 37.0 فیصد، چونا پتھر 33.3 فیصد اوچر 25.5 فیصد اور پہاڑی نمک 24.2 فیصد رہا۔وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ

پاکستان کا مسئلہ بدقسمتی یہ ہے کہ جب ہم ترقی کرتے ہیں، کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں پھنس جاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال میں مجموعی ملکی پیداوار میں شرح نمو 5.97 فیصد رہی اس نئے تخمینے کے ساتھ کرنٹ اکاؤنٹ خسارا آپے سے باہر ہوگیا اور ادائیگیوں کے توازن کا بحران آگیا ہے۔انہوں نے کہا کہ رواں برس ہماری درآمدات 76 سے 77 ارب ڈالر کے درمیان ہو گی جو تاریخی اور جی ڈی پی کے تناسب سے بھی سب سے بڑا

نمبر ہے۔انہوں نے کہا کہ برآمدات میں بھی اضافہ ہوا ہے لیکن صرف 28 فیصد ہوا جس کی وجہ سے تجارتی خسارا 45 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ ایک زمانہ تھا جب پاکستان کی برآمدات، درآمدات کے مقابلے نصف ہوتی تھی جو اب صرف 40 فیصد رہ گئی ہے، یہ ایک بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے کہ ہم صرف 40 فیصد درآمدات کی ادائیگی برامدات سے کرسکتے ہیں 60 فیصد کے لیے ہمیں ترسیلات زر اور قرضوں پر

انحصار کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے ہم بار بار ادائیگیوں کے توازن کا مسئلہ درپیش رہتا ہے۔انہوں نے کہا کہ کووڈ 19 کے دوران جب دنیا بھر میں تجارت کم، پیٹرولیم مصنوعات، گیس سستی ہوگئی تھی اس دوران ادائیگیوں میں توازن آگیا تھا لیکن اس کے بعد جیسے ہی نمو کی اور وہی نسخہ اپنایا گیا تو ادائیگیوں کا توازن بگڑ گیا۔وزیر خزانہ نے کہا کہ بڑے عرصے کے بعد پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر 10 ارب ڈالر سے کم ہو کر 9.6 ارب

ڈالر کی سطح پر آگئے ہیں اور آئندہ پیر منگل تک چین سے 2 ارب 40 کروڑ ڈالر ملنے کے بعد یہ دوبارہ 12 ارب ڈالر کی سطح پر آجائے گا۔انہوںنے کہاکہ پاکستان کی معاشی سمت سدھارنے کی ضرورت ہے تیل کی قیمت عالمی منڈی میں بہت بلند ہوچکی ہے جس کی وجہ سے ہمیں بھی قیمتوں میں 30، 30 روپے اضافہ کرنا پڑا۔انہوںنے کہاکہ ہمیں مشکل فیصلے لینے پڑے، ملک دیوالیہ ہونے کی طرف جارہا تھا اب ہم اس راستے سے ہٹ گئے ہیں اب

استحکام کے راستے پر گامزن ہیں اور جلد مستحکم نمو دیکھیں گے۔انہوں نے کہا کہ ہماری نمو کے دو پہلو ہیں ایک وہ کہ جو مستحکم ہو جس میں بار بار کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ، ادائیگیوں کا توازن خراب نہ ہو۔مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ رواں مالی سال جی ڈی پی کی شرح نمو 5.97 فیصد رہی تاہم ہمیشہ کی طرح ایک مرتبہ پھر کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی وجہ سے ادائیگیوں کے توازن کا مسئلہ آگیا۔انہوںنے کہاکہ ہمیں جامع نمو چاہیے، ہم غلطی یہ کرتے ہیں کہ

سرمایہ کار طبقے کو تجارت آگے بڑھانے کے لیے مراعات دیتے ہیں تاہم اس کے نتیجے میں یہ ہوتا ہے کہ امرا جب صنعتیں لگاتے ہیں، مراعات پاتے ہیں تو درآمدات بہت بڑھ جاتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگر جامع نمو ہوگی، غریب اور متوسط طبقے کی قوت خرید بڑھا کر نمو کی جائے تو اس سے مقامی اور زرعی پیداوار بڑھے لیکن درآمدی بل نہیں بڑھے گا کیوں کہ امرا جب خرچ کرتے ہیں تو اس میں درآمدی اشیا زیادہ ہوتی ہیں جبکہ غریب

شخص آٹے دال وغیرہ جیسی چیزوں پر خرچ کرتا ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ ملک میں 80 فیصد صنعتیں درآمدات اور مقامی فروخت کے لیے لگی ہوئی ہے برآمدات کے لیے نہیں لگی اسلئے کوشش ہوگی کہ اب زیادہ تر صنعتیں برآمدات کے لیے لگیں۔انہوںنے کہاکہ چونکہ توانائی بہت مہنگی ہوگئی ہے اس لیے ہماری صنعتیں مقابلے کی دوڑ سے نکل گئی ہیں اور توانائی کی عدم فراہمی کی وجہ سے بند بھی ہوجاتی ہیں، گزشتہ دسمبر میں حکومت نے

صنعتوں کو نصف گیس دینے کا اعلان کیا تھا جسے فروری میں مزید کم کردیا گیا تھا۔انہوں نے کہا کہ اب ہم ہر صنعت کو گیس دے رہے ہیں لیکن اگر مسلم لیگ(ن) کے سابقہ دور میں جس طرح توانائی کے سودے کیے تھے اگر پچھلی حکومت کووڈ کے دنوں میں اس جیسے سودے کرلیتی تو آج بجلی، پیٹرول کی مہنگائی میں شاید کمی ہوتی۔وزیر خزانہ نے کہاکہ جو کہتے ہیں کہ بارودی سرنگیں بچھائی گئی تو یہ صرف مسلم لیگ (ن) یا اتحادی

حکومت کیلئے نہیں تھی بلکہ ریاست پاکستان کے لیے تھیں، آج معیشت مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی کی نہیں بلکہ پاکستان کی خراب ہورہی ہے۔انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال کے ابتدائی 9 ماہ میں براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری سوا ارب ڈالر ہے جو سال 18-2017 میں 2 ارب ڈالر تھی، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی آج زیادہ ہے پاکستان ہر اعداد و شمار میں پیچھے گیا ہے۔مفتاح اسمٰعیل نے کورونا وائرس کی وبا ایک بہترین موقع تھا کیوں کہ اس کے

بعد تیل، گیس، گھی کی قیمتیں کم ہوئیں جسے گزشتہ حکومت نے چھوڑ دیا۔انہوں نے کہا کہ کووڈ سے دنیا بھر میں جانوں کا نقصان ہوا لیکن ریاست پاکستان کو معاشی نقصان نہیں ہوا تھا، جی 20 ممالک نے 4 ارب ڈالر سے زائد کی ادائیگیاں مؤخر کردیں، آئی ایم ایف سے ڈیڑھ ارب ڈالر اضافی ملے، پروگرام معطل کردیا یعنی دنیا بھر سے بہت سی مراعات ملیں لیکن آپ نے ان مراعات سے اپنی مالی حالرت بہتر نہیں کی۔انہوںنے کہاکہ گندم بھی آج ہمیں

درآمد کرنی پڑ رہی ہے اور رواں برس 3 ملین ٹن گندم درآمد کی جائیگی جس کے لیے روس سے بات چیت کرنے کی پہلی منظوری دی گئی ہے، یہ وہ گندم تھی جو 18-2017 میں برآمد کررہے تھے۔انہوں نے کہا کہ اسی طرح گزشتہ برس ہم نے چینی بھی درآمد کی جو اس سے قبل ہم برآمد کررہے تھے، بہت جگہوں پر پاکستان پیچھے چلا گیا یہ کوئی اتفاق نہیں ہوسکتا بلکہ ان کی غلطیاں ہیں۔انہوںنے کہاکہ 18-2017 میں جب ہم جی ڈی پی میں ٹیکس

کی شرح 11.1 فیصد تھا لیکن پی ٹی آئی کی حکومت اپنے تینوں برسوں میں اس شرح کو نہیں چھو سکی۔مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ اس سال بھی 11.1 پر نہیں پہنچے گی تاہم 8.5 فیصد پہنچنے کا امکان نہیں جبکہ اتنے بڑے نیوکلیئر پاور ملک کے لیے ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح اور برآمدات کی شرح 15 فیصد سے کم نہیں ہونی چاہیے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ رواں برس ہماری درآمدات میں 50 فیصد اضافہ ہوا لیکن پاکستان میں مسئلہ یہ نہیں ہے کہ

ہماری درآمدات زیادہ ہے بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ ہماری برآمدات زیادہ نہیں ہے۔وزیرمملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ ملکی معیشت نے ستر سال میں ایسے بحران نہیں دیکھے، معیشت کو ری اسٹرکچر کرنا تکلیف دہ ہوگا تاہم اس سے معیشت اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکتی ہے، وفاق کو احساس ہے کہ میگاپراجیکٹس اور قومی مفاد کے منصوبوں پر فوکس کرنا چاہیے، این ایف سی کے بعد صوبے خود ترقیاتی منصوبے خود بناسکتے ہیں۔اس موقع

پر احسن اقبال نے کہاکہ جب 2018 میں نواز لیگ کا اقتدار ختم ہوا تو اس کے بعد سب سے زیادہ متاثر ملک کا ترقیاتی بجٹ ہوا ۔انھوں نے کہا کہ موجودہ اکنامک سروے میں جو اعداد و شمار دیے گئے ہیں وہ پوری طرح معیشت سے متعلقہ نہیں ہیں۔(ن) لیگ نے اپنے گذشتہ دور میں ملک کا دفاعی بجٹ اور ترقیاتی بجٹ برابر ہوگیا تھا جو 1000 ارب دونوں شعبوں کیلئے تھا۔احسن اقبال نے دعویٰ کیا کہ تحریک انصاف حکومت نے اس سال کے

شروع میں 950 ارب کا ترقیاتی بجٹ دیا تاہم اسے 550 ارب کر دیا گیا اور آخری سہ ماہی میں تو خزانے میں پیسہ نہ ہونے سے کوئی ترقیاتی فنڈ ریلیز نہیں کیا گیا۔انھوں نے کہا کہ 22 کروڑ آبادی کے لیے 700 ارب کا ترقیاتی بجٹ ناکافی ہے اور 2000 ارب کا ترقیاتی بجٹ ہی ملک کی ترقیاتی ضروریات کو پوری کر سکتا ہے۔احسن اقبال نے کہاکہ بنگلہ دیش اور انڈیا ہم سے آگے نکل گئے ہیں۔ ‘انھوں نے کہا کہ نیشنل ٹرن آراؤنڈ کانفرنس

بلائی جائے گی تاکہ ایک چارٹر آف اکنامی پر اتفاق رائے پیدا کیا جا سکے۔احسن اقبال نے الزام عائد کیا کہ گذشتہ حکومت نے سی پیک منصوبوں کا نشانہ بنایا گیا اس کی مثال گوادر بندرگاہ ہے جس کیلئے چار سال میں کوئی فنڈ نہیں دیا گیا اور اس کی گہرائی گیارہ میٹر رہ گئی اور اب کوئی بڑا جہاز لنگر انداز نہیں ہو سکتا۔انہوںنے کہاکہ ریلوے کے شعبے میں ایم ایل ون منصوبے کو سرد خانے میں ڈال دیا گیا اور اقتصادی زون جن کی تعداد نو تھی ان

میں سے پانچ پر تو کوئی پیش رفت ہی نہیں ہوئی احسن نے کہا کہ ہائر کمیشن کا بجٹ 26 ارب سے 44 ارب کیا جا رہا ہے اسی طرح بلوچستان اور نوجوانوں کے لیے خصوصی منصوبے لا رہے ہیں۔وزیر توانائی خرم دستگیر نے کہا کہ چار برس میں ایک میگاواٹ بجلی بھی سسٹم میں شامل نہ ہونا بدقسمتی، قوم عمرانی کارکردگی کے نتائج بھگت رہی ہے، کروٹ، شنگھائی اور تریموں پلانٹس چلتے تو آج لوڈ شیڈنگ نہ ہوتی، فیصلہ کر لیا ملک میں اب امپورٹڈ ایندھن پر چلنے والا کوئی پلانٹ نہیں لگے گا۔

موضوعات:



کالم



سات سچائیاں


وہ سرخ آنکھوں سے ہمیں گھور رہا تھا‘ اس کی نوکیلی…

ماں کی محبت کے 4800 سال

آج سے پانچ ہزار سال قبل تائی چنگ کی جگہ کوئی نامعلوم…

سچا اور کھرا انقلابی لیڈر

باپ کی تنخواہ صرف سولہ سو روپے تھے‘ اتنی قلیل…

کرایہ

میں نے پانی دیا اور انہوں نے پیار سے پودے پر ہاتھ…

وہ دن دور نہیں

پہلا پیشہ گھڑیاں تھا‘ وہ ہول سیلر سے سستی گھڑیاں…

نیند کا ثواب

’’میرا خیال ہے آپ زیادہ بھوکے ہیں‘‘ اس نے مسکراتے…

حقیقتیں(دوسرا حصہ)

کامیابی آپ کو نہ ماننے والے لوگ آپ کی کامیابی…

کاش کوئی بتا دے

مارس چاکلیٹ بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی…

کان پکڑ لیں

ڈاکٹر عبدالقدیر سے میری آخری ملاقات فلائیٹ میں…

ساڑھے چار سیکنڈ

نیاز احمد کی عمر صرف 36 برس تھی‘ اردو کے استاد…

وائے می ناٹ(پارٹ ٹو)

دنیا میں اوسط عمر میں اضافہ ہو چکا ہے‘ ہمیں اب…