لندن،برسلز(این این آئی )برطانوی سائنسدانوں نے کہاہے کہ لاک ڈائون اور فیس ماسک کا استعمال کورونا وائرس کی دوسری اور تیسری لہر کے پھیلنے میں کمی کر سکتا ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق برطانوی سائنسدانوں کی شائع ہونے والی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ فیس ماسک کا ہر وقت استعمال اور لاک ڈاون سے کورونا وائرس کی نئی لہر کو پھیلنے سے روکا جا سکتاہے۔
تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ تمام لوگوں کے فیس ماسک پہننے سے وائرس کا پھیلاو بہت زیادہ حد تک ختم ہو جاتا ہے۔ ساتھ سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کے ساتھ معیشت کو بھی دوبارہ کھولاجا سکتا ہے۔سائنسدانوں کی تحقیق میں یہ بھی تجویز دی گئی ہے کہ وائرس سے بچاو کے لئے گھر میں بنائے گئے فیس ماسک بھی استعمال کئے جا سکتے ہیں۔دوسری جانب دنیا کے بہت سے ممالک نے کرونا وائرس کے پھیلا کو کم کرنے کے لیے کئی مہینوں سے عاید پابندیوں میں نرمی پیدا کرنا شروع کی ہے۔کیفے، سیاحتی مراکز اور متعدد شعبوں کی بندش کے بعد دوبارہ سرگرمیاں شروع ہوگئی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دوسری طرف یورپی یونین میں صحت کے شعبے کے ماہرین نے کرونا کی دوسری لہر کے امکان پر خبردار کیا ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق ایک بیان میں انہوں نے کہاکہ کوویڈ 19 کے کیسز میں یورپ میں لاک ڈائون اور سماجی دوری بڑھانے کے اقدامات دوبارہ نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ امکان درمیانے درجے سے زیادہ ہے اور پابندیوں میں بتدریج نرمی اور لوگوں ایک دوسرے کے ساتھ قربت وبا کو دوبارہ پھیلا سکتی ہے۔یوروپی سینٹر برائے انسداد امراض کے ذریعہ کیے جانے والی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ آنے والے ہفتوں میں کرونا کی شرح میں درمیانے درجے کی نئی لہر اٹھ سکتی ہے۔
مرکز کی ڈائریکٹر آندریا امون نے کہا کہ اس وبائی مرض کا خاتمہ نہیں ہوا ہے۔ یہ دوبارہ سر اٹھا سکتی ہے۔انہوں نے یہ بھی مزید کہا کہ اگرچہ کوویڈ 19 میں پورے یورپ میں انفیکشن میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن اس بیماری کے پھیلا کو کم کرنے کے لیے ابھی بھی کوشش کی ضرورت ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ضروری ہے کہ معاشرتی دوری کے حوالے سے سفارشات پر عمل درآمد کیا جائے اور صحت عامہ کے اعلی معیار کو برقرار رکھا جائے۔اسٹاک ہوم میں قائم یوروپی سینٹر برائے انسداد امراض نے یورپی یونین میں بیماریوں کی روک تھام کیلئے سفارشات پیش کی ہیں۔ ان کے جائزے سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ بہت سی حکومتوں کے عائد سخت معاشرتی پابندیوں کے اقدامات نے وبا کی منتقلی کو کم کردیا ہے۔