اسلام آباد( آن لائن )پاکستان میں لڑکیوں کی شادیوں سے متعلق اعداد و شمار بہت پریشان کن ہیں۔ اکیس فیصد لڑکیوں کی شادیاں اٹھارہ سال کی عمر سے پہلے ہی کر دی جاتی ہیں جبکہ تیرہ فیصد بچیاں تو اپنی عمر کے چودہویں سال میں ہی بیاہ دی جاتی ہیں۔
دنیا کی پچانوے فیصد کم عمر ماں کا تعلق غریب ممالک سے ہے اور پاکستان کم عمری کی شادیوں کے حوالے سے دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے۔ پسماندہ علاقوں میں یہ رواج عام ہے اور ایسی شادیوں کا نتیجہ فسٹولا اور دیگر بیماریوں کی صورت میں بھی نکلتا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ کم عمری کی شادی معیشت پر اس طرح براہ راست اثر انداز ہوتی ہے کہ شادی کے بعد ایسے نابالغ شہریوں کی تعلیم رک جاتی ہے، ان کا کیریئر بننے سے پہلے ہی ختم ہو جاتا ہے اور وہ معاشرے کے مفید شہری بننے کے بجائے اپنی زندگی ایک بوجھ کی صورت بسر کرتے ہیں۔جب کسی بچی کو زبردستی شادی پر مجبور کیا جاتا ہے، تو اسے اس کے نتائج عمر بھر بھگتنا پڑتے ہیں۔ پہلے تعلیم مکمل کرنے کے مواقع کم ہو جاتے ہیں اور پھر شوہر کی طرف سے زیادتی اور دوران حمل پیچیدگیوں کے امکانات بھی بہت بڑھ جاتے ہیں۔پاکستان میں نابالغ شہریوں کی شادی قانونا منع ہونا چاہیے یا نہیں، اس بارے میں حال ہی میں اسلام آباد میں قومی اسمبلی میں ایک بار پھر بحث دیکھنے میں آئی۔
لیکن اس بحث کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستانی پارلیمان نے اٹھارہ برس سے کم عمر کے شہریوں کی شادی کو جرم قرار دینے سے متعلق ایک قانونی مسودہ مسترد کر دیا۔حقوق نسواں کے لیے سرگرم پاکستان کی ایک معروف غیر سرکاری تنظیم عورت فائونڈیشن کی ڈائریکٹر ایڈووکیسی رابعہ ہادی نے اس بارے میں ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، وفاقی پارلیمان میں اس بل کی مخالفت ایک مخصوص سوچ کی عکاس ہے۔ یہ عمل قول و فعل میں تضاد کا ثبوت بھی ہے۔ یہ وہی سوچ ہے، جس کے حامی انسانی حقوق کی پامالی کے مرتکب بھی ہوتے ہیں۔ کتنا عجیب تضاد ہے کہ قانون ساز اس بات کے حامی تو ہیں کہ شناختی کارڈ کے حصول، الیکشن میں ووٹ دینے، زمین کی خرید و فروخت اور ڈرائیونگ لائسنس تک کے لیے لازمی شرط کے طور پر متعلقہ فرد کی عمر کم از کم بھی اٹھارہ برس ہونا چاہیے لیکن وہ کم عمری کی شادیوں کی عملی مخالفت نہیں کرتے۔ ایسی شادیاں انسان کو عجیب کشمکش میں مبتلا کر دیتی ہیں۔ یوں تعلیم، صحت اور اظہار رائے سمیت کئی بنیادی حقوق کی نفی کا شدید خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔