منگل‬‮ ، 26 اگست‬‮ 2025 

بڑھتے موٹاپے کا علاج ,ٹی وی اشتہارات پر پابندی؟

datetime 30  مئی‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (نیوزڈیسک ) دنیا بھر میں موٹاپا کا مسئلہ کس قدر سنگین صورتحال پیدا کررہا ہے، اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ فی الحال چالیس برس سے اسی برس کے بیچ کے افراد میں موٹاپا موت کی سب سے بڑی وجہ بن چکا ہے۔ اس سے قبل شراب نوشی اور ایڈز جیسی خطرناک عادات موت کا سبب تھیں۔ اس عمر کے بیچ کے تقریباً اٹھارہ فیصد لوگ موٹاپے کے سبب ہلاک ہوتے ہیں اور سالانہ صرف امریکہ میں موٹاپے کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماریوں پر عوام ڈیڑھ سو کھرب ڈالر خرچ کرتے ہیں۔ یہ چشم کشا انکشافات نے امریکی دانشوروں کو بوکھلا دیا ہے اور یہ مطالبہ زور پکڑ رہا ہے کہ ٹی وی پر دکھائے جانے والے اشتہارات جن میں کھانے پینے کی مزیدار سی اشیا دکھائی جاتی ہیں، ان پر پابندی لگائی جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جب پوری ٹی وی سکرین پر گرما گرم بھاپ اڑاتی بریانی کی پلیٹ یا پھر پنیر سے بھرپور خوش رنگ پزا یا پھر تلی ہوئی مرغی وغیرہ جیسی چیزیں ٹی وی پر دکھائی جاتی ہیں تو انسانی نفسیات پیٹ بھرے شخص کو بھی بھوکا ہونے کا احساس دلاتی ہے اور یوں ایسی چیزیں کھانے کی طلب بڑھ جاتی ہے۔ یہ اشتہارات پیش کرنے والے کمپنیز انسانی نفسیات سے بخوبی واقف ہیں، اسی لئے وہ صرف ٹی وی ہی نہیں بلکہ بس سٹیشن، اخبار راسلے، شاپنگ مارکیٹ سے لے کے ہر جگہ ایسے ہی اشتہا انگیز کھانوں کی تصاویر لگاتی ہیں۔ تاحال امریکی حکومت نے اس ضمن میں کچھ اقدامات کئے ہیں جیسا کہ سکول میں کھیل کے میدان سے جنک فوڈ اور سافٹ ڈرنکس کے اشتہارات شائع کرنے پر پابندی لگائی جاچکی ہے نیز ایک اور قانون کے ذریعے سکولز میں ان کی فروخت کو بھی محدود کیا جاچکا ہے تاہم یہ اقدام کافی نہیں ہیں کیونکہ سروے اور تحقیقاتی رپورٹس کے مطابق فی الوقت بچوں کی نسبت بڑوں میں موٹاپے کی شرح دوگنا ہے۔ بچوں میں ہر چھٹا بچہ موٹاپے کا شکار ہے جبکہ بڑوں میں ہر تیسرا فرد موٹاپے کا شکار ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ موٹے ہونا سب سے آسان ہے۔ صرف ایک اضافی فرائیز کی سرونگ بھی آپ کو اضافی100کیلوریز دیتی ہے جس سے مہینے میں ایک پونڈ وزن بڑھ سکتا ہے۔ اس کیلئے ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ ہمیں خود پر قابو رکھنا ہوگا۔ یار دوست زبردستی ایک سکوپ آئس کریم یا چپس کھانے پر اصرار کریں تو انہیں نہ کہنے کا گر سیکھنا ہوگا۔ مگر یہ سب کچھ اتنا آسان نہیں ہے۔ خاص کر جب میڈیا کی بدولت ہمارے اردگرد ہرطرف ایسے ہی اشتہا انگیز کھانوں کی تصاویر موجود ہوں۔ اس کیلئے ذاتی کوششوں کے ساتھ ساتھ حکومت کو اشتہاری مہمات پر بھی کنٹرول کرنا ہوگا تاکہ لوگوں کیلئے اپنے جسم کی ضرورت اور زبان کے چٹخاروں کے بیچ فرق کرنا آسان ہوسکے۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



سپنچ پارکس


کوپن ہیگن میں بارش شروع ہوئی اور پھر اس نے رکنے…

ریکوڈک

’’تمہارا حلق سونے کی کان ہے لیکن تم سڑک پر بھیک…

خوشی کا پہلا میوزیم

ڈاکٹر گونتھروان ہیگنز (Gunther Von Hagens) نیدر لینڈ سے…

اور پھر سب کھڑے ہو گئے

خاتون ایوارڈ لے کر پلٹی تو ہال میں موجود دو خواتین…

وین لو۔۔ژی تھرون

وین لو نیدر لینڈ کا چھوٹا سا خاموش قصبہ ہے‘ جرمنی…

شیلا کے ساتھ دو گھنٹے

شیلا سوئٹزر لینڈ میں جرمنی کے بارڈرپر میس پراچ(Maisprach)میں…

بابا جی سرکار کا بیٹا

حافظ صاحب کے ساتھ میرا تعارف چھ سال کی عمر میں…

سوئس سسٹم

سوئٹزر لینڈ کا نظام تعلیم باقی دنیا سے مختلف…

انٹرلاکن میں ایک دن

ہم مورج سے ایک دن کے لیے انٹرلاکن چلے گئے‘ انٹرلاکن…

مورج میں چھ دن

ہمیں تیسرے دن معلوم ہوا جس شہر کو ہم مورجس (Morges)…

سات سچائیاں

وہ سرخ آنکھوں سے ہمیں گھور رہا تھا‘ اس کی نوکیلی…