سینئر کالم نگار سہیل وڑائچ اپنے آج کے کالم ’’عمران کو چلنے دو‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔جب پہلی دفعہ میں نے NKLفارمولے کا ذکر سنا تو میں اسے ایک شوشا سمجھا مگر پھر بھی تجسّس کی خاطر NKLکی تفصیل جانی تو معلوم ہوا کہ یہ نواب شاہ (N)، کراچی (K)اور لاہور (L)کا مخفف ہے اور اگر اسے اردو میں پڑھیں تو ’’نکل‘‘ کا لفظ بنتا ہے، کہانی یہ سنائی گئی کہ اس فارمولے کی رو سے نواب شاہ کے زرداری، کراچی کے الطاف اور لاہور کے شریفوں کو سیاست سے نکال باہر کرنا ہے۔
یہ شوشا یا پھلجھڑی اب حقیقت بنتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ کراچی میں صفایا ہو چکا ہے، پنجاب میں آدھی صفائی ہوگئی، آدھی ہورہی ہے۔ سندھ میں بھی کام شروع ہے۔’’ نکل‘‘ فارمولے کی موجودگی میں ن لیگ کی ابھی بھی جان چھوٹنے والی نہیں اس کے اندر مزید فارورڈ بلاکس بننے کی تیاریاں ہیں۔ دو یا تین نئے گروپوں پر کام جاری ہے۔ اس کے گناہ نہ معاف ہوئے ہیں اور نہ بھلائے گئے ہیں۔ن کے حوالے سے ابھی بھی الیکشن سے پہلے والی پالیسی ہی جاری ہے، پیپلز پارٹی اور نواب شاہ کے زرداری کو الیکشن کے دوران ڈھیل دی گئی مگر اب پھر سے ’’نکل ‘‘فارمولے پر عمل درآمد شروع ہے۔ نئے بلدیاتی نظام سے نئے چہرے سامنے آئیں گے اور پرانے چہرے بتدریج پیچھے ہٹا دیئے جائیں گے۔سیاسی منظر نامہ کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان سے چھوٹی موٹی باتوں پر اختلاف ہوسکتا ہے، ہلکی پھلکی تنقید بھی کی جاتی ہے مگر مجموعی طور پر صرف ایک ہی راستہ نظر آرہا ہے اور وہ ہے کہ ’’عمران کو چلنے دو‘‘ اس کے ایجنڈے میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی جائے۔ کوئی احتجاج، کوئی دھرنا، کوئی جلسہ جلوس چھ ماہ تک کارگر نہیں ہوگا۔ اس وقت ملک اندرونی اور بیرونی بحران سے گزر رہا ہے، معیشت کا بھی بیڑا غرق ہے۔ عمران خان سے لاکھ اختلاف ہو لیکن اس کو مینڈیٹ ملا ہے اور اوپر سے اپوزیشن نے قومی اسمبلی میں رکنیت کا حلف اٹھا کر اس مینڈیٹ پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔
اس لئے اب ریاست، جمہوریت اور معیشت کی بہتری کا ایک ہی راستہ ہے کہ ’’عمران کو چلنے دو‘‘۔فوج بھی یہی چاہتی ہے کہ ملک میں استحکام آئے، ن لیگ اور پیپلز پارٹی کا فائدہ بھی اس میں ہے کہ عمران کو چلنے دیا جائے۔ فرض کریں اگر عمران حکومت ناکام ہوئی تو اقتدار ن لیگ یا پیپلز پارٹی کو تو ملنے والا نہیں۔ ق لیگ اس قابل نہیں رہی کہ اسے اقتدار ملے تو پھر کیا ہوگا۔
آخر کار کوئی تیسری قوت ہی آئے گی۔ ’’نکل‘‘ فارمولے کی روشنی میں دیکھیں تو فی الحال مقتدر حلقوں نے سارے ہی انڈے عمران خان کی ٹوکری میں ڈال دیئے ہیں اور اپوزیشن کی خالی ٹوکری کو بھی برداشت نہیں کیا جارہا۔ تقدیر یہ منصوبہ روک لے تو رک سکتا ہے وگر نہ طاقتیں تو عمران خان کو کامیاب کرانا اور اسے چلانا چاہتی ہیں۔ اس بار سازشیں سیاسی حکومت کے خلاف نہیں سیاسی حکومت کے حق میں ہورہی ہیں۔جن عاقبت نا اندیشوں کا خیال ہے کہ اگلے دو تین ماہ میں عمران حکومت گر جائے گی وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں، عمران خان کی تحریک انصاف اب ہوائی جماعت نہیں ہے، کروڑوں ووٹروں کی Solidجماعت بن گئی ہے۔
اگر کسی نے عمران خان کو ہٹانے کی کوشش کی تو اس کا شدید ردعمل ہوگا۔ عمران کے حامی اور زیادہ طاقت سے اسے دوبارہ اقتدار میں لائیں گے۔ جب تک عمران کو پورا موقع نہیں ملتا۔ اس وقت تک تحریک انصاف کا جذبہ سرد نہیں ہوگا اور وہ عمران خان کے ایجنڈے کی تکمیل چاہیں گے۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ صبح کی سیر کرتے ہوئے ریٹائرڈ چیف جسٹس ہائیکورٹ جسٹس اللہ نواز سے ملاقات ہوگئی۔
رک کر کہنے لگے عمران خان کی حمایت کرو ،اسے چلنے دو، اس کو روکو مت اور پھر مزید کہنے لگے عمران خان صحت کے شعبے میں انقلابی تبدیلیاں لا رہا ہے۔ ڈاکٹروں کو پرائیویٹ پریکٹس کی اجازت نہیں ہوگی۔ ڈاکٹروں کو کہا جائے گا کہ وہ اسپتال کے اندر ہی پریکٹس کریں اور اپنی کمائی کا 25,20فیصد حکومت کو دیں۔ جسٹس اللہ نواز نے کہا کہ ہر اسپتال کو پرائیویٹ لوگوں کی ایک مینجمنٹ کمیٹی چلائے گی۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ تعلیم کے شعبے میں بھی اسی طرح کی انقلابی تبدیلیاں آنے والی ہیں کہ پاکستان درست ٹریک پر چڑھ جائے گا۔
کئی سمندر پار آباد پاکستانی بھی یہ مشورہ دیتے ہیں کہ عمران خان کی حمایت کریں کیونکہ وہی ملک کو بحرانوں سے نکالے گا۔میری شدید خواہش ہے کہ عمران حکومت تبدیلی اور خوشحالی لانے میں ہر صورت کامیاب ہو۔ عمران خان ناکام ہوا تو پاکستان کی مڈل کلاس شدید ترین مایوسی کا شکار ہوگی۔ اس کی پھر سے سیاست میں دلچسپی ختم ہو جائے گی، اسی طرح اگر عمران خان ناکام ہوا تو سمندر پار پاکستانی شدید تکلیف کا شکار ہوں گے ۔ انہیں ملک میں تبدیلی کی جو امید ہے وہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گی اور ان میں سے بیشتر کئی سالوں تک پاکستان کی سیاست میں دلچسپی سے ہی تائب ہوجائیں گے۔
مڈل کلاس اور اوورسیز پاکستانیوں کی مایوسی بہت بڑا نقصان ہوگا، اسی لئے میری خواہش ہے کہ عمران ان دونوں طبقوں کی ملک میں دلچسپی برقرار رکھنے کے لئے ہر صورت کامیاب ہو۔بالآخر اقتصادی ٹیم بھی خوابوں کی دنیا سے نکل کر راہ راست پر آنے لگی ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک سے 7ارب ڈالر کا معاہدہ ہوگیا، آئی ایم ایف کے پاس بھی جایا جارہا ہے۔ عمران خان ٹیم کی کامیابی یا ناکامی کا انحصار ان کی سیاست پر نہیں ان کی معاشی پالیسیوں پر ہے۔ کوئی مانے نہ مانے عمران نے اپنے حامیوں اور مخالفوں کے لئے جو سیاسی بیانیہ تشکیل دیا ہے وہ بڑی کامیابی سے چل رہا ہے۔
ان کا اصل چیلنج معاشی منصوبہ بندی ہے۔ اس وقت وفاقی سطح پر بحث یہ چل رہی ہے کہ آئی ایم ایف سے 12,10ارب کا پیکیج لیا جائے یا صرف 4,3ارب کا۔ پیکیج تو ہر صورت میں لینا پڑے گا، چھوٹا پیکیج لیں گے تو شاید شرائط اتنی سخت نہ ہوں۔ زیادہ بڑا قرضہ لینے کی صورت میں شرائط سخت ہونگی، مہنگائی بھی بڑھے گی لیکن جب پیکیج بڑا ہوگا تو اس سے کچھ نہ کچھ ریلیف بھی ملے گا۔ خسرو بختیار بڑا پیکیج لینے کے حامی ہیں جبکہ اسد عمر چھوٹا پیکیج لینا چاہتے ہیں۔
دیکھیں حتمی فیصلہ کیا ہوتا ہے؟’’نکل‘‘ فارمولا غلط ہے یا صحیح اس کا اصل فیصلہ تو تاریخ کرے گی۔ بظاہر اس پر عمل درآمد جاری نظر آتا ہے۔ یاد رہے ماضی میں ایسے تمام فارمولے ناکام ہوئے تھے، ریاست کی موجودہ سیاسی حکمت عملی پر سب سے بڑا اعتراض یہ کیا جارہا ہے کہ سارے انڈے تحریک انصاف کی ٹوکری میں ڈالنے کا نتیجہ غلط بھی نکل سکتا ہے۔ ماضی میں تو اپوزیشن کی سرپرستی بھی کی جاتی تھی مگر شاید اب اپوزیشن بھی نئی بنانے کی طرف بڑھا جائیگا۔
ایک طرف تحریک انصاف ہوگی اور دوسری طرف ن اور پی پی پی کے باغی جو نئی اپوزیشن بنائیں گے اور جنہیں سرکار دربار میں رسوخ حاصل ہوگا۔ بظاہر یہ سب بڑا ہی سہانا اور سائونڈ پروف منصوبہ ہے، مزاحمت کے آثار بھی نہیں ہیں لیکن واقعات اور حالات ہمیشہ کنٹرول میں نہیں رہتے، کوئی بڑا اندرونی یا بیرونی واقعہ اس ساری منصوبہ بندی کو ناکام بھی کرسکتا ہے لیکن سردست اتنا ہی کافی ہے کہ ’’عمران کو چلنے دو‘‘۔