اسلام آباد(ویب ڈیسک)”حجرِ اسماعيل” یا “حطیم” مسجد حرام کے مطاف میں خانہ کعبہ کے شمال میں واقع نصف دائرے کی شکل کی ایک دیوار ہے۔ اس کے حوالے سے متعدد تاریخی روایات ہیں اور علماء کرام اور محققین کا اس بات پر اجماع ہے کہ یہ خانہ کعبہ سے علاحدہ نہیں بلکہ اسی کا ایک حصّہ ہے۔حرمین شریفین کے امور کے محقق محیی
الدین الہاشمی نے العربیہ ڈاٹ نیٹ کو اس حوالے سے بتایا کہ حجرِ اسماعیل یا حطیم بیت اللہ کا ایک حصّہ ہے۔ اس کے اندر سے طواف کے لیے گزرنا درست عمل نہیں بلکہ اس کے پیچھے سے طواف کرنا چاہیے۔ کئی احادیث نبویہ سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ اس کے احاطے کے اندر نماز پڑھنا فضیلت میں خانہ کعبہ کے اندر نماز پڑھنے کے جیسا ہے۔
الہاشمی نے مزید بتایا کہ تاریخی مصادو و مراجع میں “حجرِ اسماعیل” کے کئی نام آئے ہیں مگر ان میں مشہور ترین پانچ نام ہیں ، ان میں پہلا نام “الحجر” ہے۔ بارش یا خانہ کعبہ کی چھت کو غسل دینے کے دوران میزابِ رحمت سے پانی حجر اسود کے احاطے کے اندر ہی گرتا ہے۔اس کا دوسرا نام “جدر” اور تیسرا نام “حجرِ اسماعیل” ہے۔ تیسرے نام کی توجیہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس مقام کو اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے لیے گود کے طور پر چُنا تھا۔ چوتھا نام “حفرہِ اسماعیل” ہے۔ بیت اللہ کے ستون کھڑے کرنے اور بنیادیں ڈالنے سے قبل اس مقام پر ایک گڑھا تھا۔
پانچواں نام “الحطیم” ہے۔ خانہ کعبہ سے بظاہر علاحدہ نظر آنے کے سبب اس کو یہ نام دیا گیا۔
الہاشمی کے مطابق اسلامی تاریخ کے خلفاء نے وقت کے ساتھ اس کی ہیئت میں تبدیلی کی جس کے بعد آج یہ موجودہ صورت میں موجود ہے۔ عباسی دور میں خلیفہ مہدی نے اس حصے کو دوبارہ سے خانہ کعبہ میں شامل کرنے کا ارادہ کیا مگر امام مالک رحمت اللہ علیہ نے اسے مذکورہ عمل سے روک دیا تا کہ خانہ کعبہ اور حجر اسماعیل تعمیر اور انہدام کی جگہ نہ بن جائے۔ اس لیے کہ خانہ کعبہ اور حجر اسماعیل کی موجودہ شکل وہ ہے جس حالت میں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ان کو دیکھا اور ان کے گرد طواف کیا۔