سعودی عرب کے 79 سالہ بادشاہ سلمان نے جنوری میں اقتدار سنبھالنے کے بعد ملک میں سکیورٹی اور استحکام کا وعدہ کیا ہے۔ انھوں نے کہا: ’ہم اسی راستے پر چلتے رہیں گے جس پر ریاست کے قیام سے لے کر اب تک قوم چلتی رہی ہے۔‘لیکن وہ کون سا راستہ ہے، محدور اصلاحات کا راستہ یا قدامت پسندی کا طرف پسائی کا راستہ۔ایسے وقت جب سعودی بلاگر راؤف بداوی کو اسلام کی مبینہ توہین کے الزام میں دس برس کی قید اور ہزار کوڑوں کی سزا تیل سے مالا مال بادشاہت کے انسانی حقوق کے ریکارڈ پر روشنی ڈالتی ہے، ہم نے چار ماہرین سے رائے لی ہے کہ سعودی عرب کے نئے بادشاہ کی آمد سے کیسی تبدیلی کی توقع کی جا سکتی ہے۔
خالد الماینا، ایڈیٹر عرب نیوز
محدود اصلاحات جاری رہیں گی۔میں درجنوں بار بادشاہ سلمان سے مل چکا ہوں۔ ان کے پاس علم ہے، انھوں نے دنیا دیکھی ہوئی ہے ، بہت پڑھا لکھا ہیں، بہت ہوشیار ہیں، نہایت کفایت شعار ہیں، اور بہت ہی منظم ۔‘’وہ خاندانی طور پر نظم و ضبط پر زور دینے والی شخصیت ہیں۔ جب بھی سعودی شہزادے یا شہزادیاں کسی مصیبت میں پھنسے ہیں بادشاہ سلمان نے خاموشی سے ان معاملات کو سدھار دیا۔بادشاہ سلمان نے ریاض شہر کی گورنری کے پچاس برسوں میں شہر کی شکل ہی بدل دی ہے۔ انھوں نے پچاس برسوں میں صحرائی قصبے کو ستر لاکھ کی آبادی والے جدید شہر میں بدل دیا جہاں بلند و بالا عمارتیں ہیں اور دنیا کے تمام بڑے فوڈ چین کر مراکز قائم ہیں۔’ریاض شہر میں سکولوں، کالجوں، ہسپتالوں کی ترقی ایک ایسے شخص کی نشاہدی کرتی ہیں جو اپنےلوگوں کے بارے میں متفکر ہے۔ بطور گورنر بادشاہ سلمان قومی زندگی میں عورتوں کے حامی تھے۔اس کا بہت کم امکان ہے کہ بادشاہ سلمان سابق بادشاہ عبداللہ کی جانب سے کی جانی والی اصلاحات کو ختم کریں گے۔
علی الاحمد،انسٹیٹوٹ آف گلف افیرز،
علی الاحمد مسلک کے لحاظ سے شیعہ مسلمان ہیں جو سعودی عرب کے مشرقی صوبے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد، بہن بھائی، بھانجے بھتیجے اور چچا نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کی ہے۔ وہ اب امریکہ منتقل ہو چکے ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ بادشاہ سلمان طاقت کو اپنے خاندان میں مرکوز کرنے کی کوشش کریں گے۔انھوں نے اپنے دور کے پہلے دس روز میں جو تبدیلیاں کی ہیں وہ اس کی نشاندہی کرتی ہے۔ پہلے دس روز میں شاہی حکم پر وزیروں کی چھٹی کرائی گئی، درجن سے زیادہ قونصلوں کو توڑ دیا، بادشاہ نے طاقت کو سعودی عرب کے شاہی خاندان کے مرکز نجد میں ہی رکھا ہے۔’وفاداری اور اعتبار کو ترجیح دی جائے گی۔وہ پوری کوشش کریں گے کہ ان کا خاندان خوش رہے۔ آپ دیکھیں گے کہ خاندان کے لوگوں کو دوسرں کے مقابلہ میں بہت زیادہ حصہ ملے گا۔’عبدالعزیز کے بیٹے بادشاہ سعود کو ان کے سوتیلے بھائیوں نے اقتدار سے علیحدہ کر دیا تھا۔ بادشاہ سلمان اس آپریشن کا حصہ تھے۔ سعودی شاہی خاندان اب پہلے سے بڑا ہے اور اس میں یقیناً کشیدگی پیدا ہو گی۔
’بادشاہ عبداللہ نے چودہ قونصلوں کو ختم کر کے انھیں دو قونصلوں میں ضم کر دیا ہے جن میں ایک کی سربراہی ان کے بیٹے اور ایک کی ان کے بھتیجے کے پاس ہے۔
’وزیر داخلہ محمد نائف کا انسانی حقوق کے بارے میں ریکارڈ انتہائی سیاہ ہے، وہ اب بادشاہ کے بعد سب سےطاقتور شخص مانا جاتاہے۔ وزیر داخلہ نے وہ کام کیا جو اس سے پہلے سعودی عرب میں کبھی نہیں ہوا۔ انھوں نے عورت ڈرائیورں کو جیلوں میں بند کیا۔’اپنے بھتیجے کی ترقی ظاہر کرتی ہے کہ بادشاہ سلمان سعودی عرب کو مختلف سمت میں لے کر جائیں گے۔ وہ سماجی طور پر بہت قدامت پسند ثابت ہوں گے، وہ سیاسی طور پر انتہائی سخت گیر ثابت ہوں گے۔
بروس ریڈل،ڈائریکٹر انٹیلجنس بروکلن انسٹیٹوٹ
بروس ریڈل سی آئی اے میں 29 برس تک اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے ہیں اور اس دوران انھوں نے بارہا سعودی عرب کا دورہ کیا۔’امریکہ اور سعودی عرب کی مضبوط شراکت چلتی رہے گی۔ میں موجودہ بادشاہ سلمان کو پانچ چھ دفعہ مل چکا ہوں۔ لیکن اکثر بڑی اجلاسوں میں۔ میں نے ہمیشہ ان کو انتہائی سنجیدہ شخصیت پایا ہے جو سعودی عرب کے امریکہ کے ساتھ تعلقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔’نہر سویز کے وقت سے سعودی عرب اور امریکہ میں قائم ہونے والے تعلقات کے تبدیل ہونے کا امکان نہیں ہے۔بادشاہ سلمان پچھلے سالوں سے سعودی عرب کی بنیادی پالیسی سازوں میں سے ایک تھے۔ میں نہیں سمجھتا کہ وہ بہت بڑی تبدیلی کریں گے۔
’بادشاہ سلمان سوویت یونین کے خلاف لڑنے والے افغان مجاہدین کی مدد کےلیےسعودی عرب سے فنڈ اکھٹے کرنے کے ذمہ دار تھے۔ان پیسوں سے افغان مجاہدین کو بہت مدد ملی۔ پیسوں کے علاوہ بہت سے سعودی رضا کار افغانستان میں لڑنے کی غرض سے بھی گئے۔ اس وقت کے شہزادے اور موجودہ بادشاہ اس عمل میں بھی شریک تھے۔’امریکہ کے لیے سب سے اہم یہ ہے کہ سعودی عرب اور اسامہ بن لادن کا تعلق کب ختم ہوا۔البتہ نائن الیون کمشن کی رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ سعودی عرب کا نائن الیون حملوں میں کوئی کردار نہیں تھا۔
سافا الاحمد، سعودی فلم ساز
سافا الاحمد نے سعودی عرب کے مشرقی صوبوں میں اٹھنے والے بغاوت پر فلم بنائی ہے۔ اس وقت جب دنیا کی توجہ مصر، لیبیا، اور یمن پر مرکوز تھی سعودی حکومت نے 2011 سے شروع ہونے والے مظاہروں کو طاقت کے ذریعے کچل دیا۔یہ بہت تکلیف دہ تھا کہ سعودی عرب کے علاوہ باقی ممالک میں اٹھنے والی تبدیلی کی لہر کو ساری دنیا میں دکھایا جا رہا تھا۔ یہ تاریخی تھا۔ سعودی عرب میں کبھی بھی ایسا نہیں ہوا۔ سعودی عرب اس سے پہلے 1979 میں مظاہرے ہوئے تھے جو ایک ہفتے تک جاری رہے تھے۔سافا الاحمد نے چھپ کر سعودی عرب کے مشرقی صوبے میں اٹھنے والی تحریک کی شہادتیں اکھٹی کیں۔مظاہرین سیاسی قیدیوں کو رہائی، شیعہ آبادی کے لیے مزید سیاسی حقوق اور معاشی کا مطالبہ کر رہے تھے۔