چین (نیوز ڈیسک)دنیا کے بعض اشتراکی اور سامراجی ممالک کا عائلی نظام، خاصا نرالا اور غیر فطری ہے۔یہاں کی مادہ پرست حکومتیں قومی وسائل کے استعمال کی منصوبہ بندی کے پیشِ نظر شادی شدہ جوڑوں پر خاندانی منصوبہ بندی کے نام پر مختلف قدغنیں لگاتی آئی ہیں۔ ان اقوام میں چین سب سے آگے ہے۔چین نے ملک بھرمیں انسانی آبادی محدود کرنے کے لیے خاندانی منصوبہ بندی کے طور پر1978ئ اور 1980ءکے درمیان شادی شدہ جوڑوں کے لیے ”ایک بچّہ پالیسی“ کے قانون کا نفاذ کیا تھاجس کا بنیادی مقصد چین میں انسانی آبادی کے تناسب سے پانی ودیگر وسائل کی طلب اور فراہمی کے ساتھ ساتھ ملک کے معاشرتی، معاشی اور ماحولیاتی مسائل پر قابو پانابتایا گیا تھا۔چینی حکومت کا کہنا ہے کہ مذکورہ قانون کی بدولت حکومت400ملین انسانوں کی پیدائش روکنے میں کامیاب رہی کیوں کہ چینی آبادی کی اکثریت نے اس قانون پر عمل کیا لیکن آج ایک طویل مدت گزرجانے کے بعد ان غیر فطری قوانین کے نہایت بھیانک انسانی، سماجی اور نفسیاتی نتائج سامنے آرہے ہیں۔گھر میں اکلوتے ہونے کے باعث والدین کی طرف سے بھرپور توجّہ اور حد سے زیادہ لاڈ پیارملنے کے باوجود بچّہ آج خود کو خوش قسمت نہیں گردانتا۔اکلوتے ہونے کے باعث ،ان بچّوں کے اپنے والدین کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں جنہوں نے ان کی زندگیوں پر بھرپور توجّہ دی لیکن ان سے بلند توقعات بھی وابستہ رکھیں۔نتیجہ یہ نکلا کہ یہ بچے خود پرستی اور نا امیدی کا شکار ہو گئے۔ ایسا عموماً بہن بھائیوں والے بچّوں میں نہیں ہوتا۔’ ایک بچّہ پالیسی قانون‘ کے خاتمے کے باقاعدہ اعلان نے اکلوتے بچّے کے طور پر پروان چڑھنے والے تقریبا 150ملین نوجوانوں کے تنہائی کے احساس اور تاسف کو دوبارہ بیدار کردیا ہے۔ایک نوجوان نے بتایا کہ”موجودہ نسل درد ناک، قابلِ رحم زندگی گزار رہی ہے اور خاندان کی نظر اندازی کے باعث زیادہ تر خود ہی میں مگن رہتی ہے۔“ چین کی ایک ویب سائٹ میں اَپ لوڈ کیے گئے ایک حالیہ مضمون میں ایک نوجوان نے لکھا ہے ’کیا اس غیرفطری قانون سے متاثرہ نسل کی تنہائی کبھی ختم ہوگی؟‘ایک اور شہری کا کہنا ہے’ چین کی پانچ ہزار سالہ تاریخ میں ہم وہ واحد نسل ہیں جو” اکلوتے بچّے“کے طور پر رہ گئے ہیں۔“بیجنگ کے ایک خبر رساں ادارے، شینہوا کے افسرِ اعلیٰ برائے منصوبہ بندی،ہوانگ ہی تاﺅ نے کہا کہ ”ہمیں تشویش ہے کہ ہمارے بچّے گزشتہ نسل کے مقابلے میں زیادہ تنہائی محسوس کریں گے چوں کہ وہ خالہ، ماموں، چچا اور عم زاد رشتوں سے محروم رہیں گے۔ مجھے یاد ہے کہ بچپن میں میرے ساتھ کھیلنے کودنے کے لیے درجنوں عم زاد میسّر تھے۔ میں وہ بچّہ تھا، جسے اس کے بھائی اور بہنیں پسند کرتی تھیں، جب کہ میری بیٹی میرے بچپن کے مقابلے میں زیادہ تنہا ہوتی جارہی ہے۔ مجھے دکھ ہے کہ مستقبل میں اس قسم کا اس کا کوئی رشتہ نہیں ہوگا۔“اسی طرح انٹرنیٹ کے ایک ادارے سے وابستہ، وانگ نامی افسر کہتے ہیں کہ ”بہت سے چینی گھرانے بڑے خاندان کے تصّور کو فراموش کرچکے ہیں۔ جو زندگی کا فطری حصّہ تھا۔ ایک گھرانے کو ایک سے زائد بچّے کی فطری ضرورت کو سمجھنا چاہیے، میری بیٹی نہیں جانتی کہ خالہ، ماموں، چچا اور پھوپھی کے رشتے کیا ہوتے ہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ وہ اس حقیقت کو نہ جانے کہ بھائی یا بہن کیا ہوتے ہیں۔