جمعرات‬‮ ، 28 اگست‬‮ 2025 

ملیریا،مچھروں کا مقابلہ اب مچھر کریں گے

datetime 24  ‬‮نومبر‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(نیوز ڈیسک ) امریکی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے جینیاتی طور پر ایسے مچھر کی افزائش کرلی ہے جو ملیریا کے انفیکشن کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔
ان کہنا ہے کہ اگر لیبارٹری میں تیار کردہ اس تکنیک کے عملی تجربے کے مثبت نتائج سامنے آئے تو اس کے ذریعے ملیریا کے مچھروں کو انسانوں میں بیماری پھیلانے سے روکا جاسکے گا۔
سائنسدانوں نے ملیریا پھیلانے والے مچھروں کے ڈی این اے میں ایک ’مزاحمتی‘ جین کا اضافہ کیا ہے۔جین میں ترمیم کے اس طریقے کو’ کرسپر‘ کا نام دیا گیا ہے۔امریکہ کے سائنسی جرنل پی این اے ایس میں چھپنے والی رپورٹ کے مطابق ان جینیاتی طور پر تیار کردہ مچھروں کے آپس میں اختلاط کے بعد پیدا ہونے والے نئے مچھروں میں بھی وہ مزاحمتی جین پائے گئے ہیں۔اصولی طور پر اگر یہ مچھر کسی انسان کو کاٹ بھی لیں تو وہ اپنے اندر پوشیدہ ملیریا کے جراثیم کو ان انسانوں میں منتقل کرنے کے قابل نہیں رہیں گے۔خیال رہے کہ دنیا کی تقریبا نصف آبادی میں ملیریا کا خطرہ موجود ہےبعض سائنسدانوں کا خیال ہے کہ ان جینیاتی طور پر تیار کرد مچھروں کو بانجھ کردیا جائے تاکہ یہ غیر مضر ہو کر ختم ہوجائیںحالانکہ ملیریا کو مچھر دانی، مچھرمارنے والی دواو¿ں اور دیگر مزاحمتی طریقوں سے روکا جاسکتا ہے، اور ملیریا کا شکار ہونے والے مریضوں کے لیے دوائیاں بھی ایک عرصے موجود ہیں لیکن اس کے باوجود ہر سال ملیریا سے تقریبا پانچ لاکھ 80 ہزار افراد ہلاک ہوجاتے ہیں۔ملیریا کے خلاف اہم کردارسائنسدان ملیریا کا مقابلہ کرنے کے لیے نئے طریقوں کی تلاش میں لگے ہوئے ہیں۔یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کی ٹیم کو یقین ہے کہ ان کے جینیاتی طور پر تیار کردہ مچھر ایک اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ان مزاحمتی مچھروں کی افزائش سے یہ بہت ممکن ہے کہ یہ ملیریا کے جراثیم پھیلانے والے مچھروں کی جگہ لے لیں۔انھوں نے بھارت میں پائے جانے والے ایک خاص قسم کے مچھر اینوفلس سٹیفنسی کو تجربے کے لیے منتخب کیا۔ڈاکٹر انتھونی جیمز اور ان کی ٹیم نے اس تجربے میں یہ دکھایا ہے کہ اس مچھرمیں نیا ڈی این اے داخل کر سکتے ہیں جن سے یہ مچھر ملیریا کے جراثیم رکھنے کے قابل نہیں رہیں گے۔ملیریا سے ہر سال تقریبا چھ لاکھ افراد ہلاک ہوتے ہیںاس کے ڈی این اے میں ملیریا کے جراثیم کی ایک ضد موجود ہے۔ یہی ڈی این اے افزائش کیے جانے والے 100 فیصد مچھروں میں تین نسلوں تک موجود پایا گیا۔سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ نتائج امید افزا ہیں اور ہم یہ تجربہ مچھروں کی دوسری اقسام پر بھی کر سکتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ حالانکہ یہ جینیاتی مچھر ملیریا کے مسئلے کا واحد حل نہیں ہے لیکن یہ ملیریا کے خلاف جنگ میں ایک کار آمد اضافی ہتھیار کا کام ضرور کر سکتا ہے۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



سنت یہ بھی ہے


ربیع الاول کا مہینہ شروع ہو چکا ہے‘ اس مہینے…

سپنچ پارکس

کوپن ہیگن میں بارش شروع ہوئی اور پھر اس نے رکنے…

ریکوڈک

’’تمہارا حلق سونے کی کان ہے لیکن تم سڑک پر بھیک…

خوشی کا پہلا میوزیم

ڈاکٹر گونتھروان ہیگنز (Gunther Von Hagens) نیدر لینڈ سے…

اور پھر سب کھڑے ہو گئے

خاتون ایوارڈ لے کر پلٹی تو ہال میں موجود دو خواتین…

وین لو۔۔ژی تھرون

وین لو نیدر لینڈ کا چھوٹا سا خاموش قصبہ ہے‘ جرمنی…

شیلا کے ساتھ دو گھنٹے

شیلا سوئٹزر لینڈ میں جرمنی کے بارڈرپر میس پراچ(Maisprach)میں…

بابا جی سرکار کا بیٹا

حافظ صاحب کے ساتھ میرا تعارف چھ سال کی عمر میں…

سوئس سسٹم

سوئٹزر لینڈ کا نظام تعلیم باقی دنیا سے مختلف…

انٹرلاکن میں ایک دن

ہم مورج سے ایک دن کے لیے انٹرلاکن چلے گئے‘ انٹرلاکن…

مورج میں چھ دن

ہمیں تیسرے دن معلوم ہوا جس شہر کو ہم مورجس (Morges)…