کراچی(نیوز ڈیسک ) ملک میں15 نومبر تک کپاس کی پیداوار میں23 فیصد کمی کے اعداد و شمارکے باوجودسرفہرست ٹیکسٹائل ملوں کی جانب سے روئی خریداری میں مستقل عدم دلچسپی کے باعث گزشتہ ہفتے بھی مقامی کاٹن مارکیٹس میں روئی کی قیمتوں میں توقعات کے مطابق تیزی رونما نہ ہوسکی بلکہ محدود پیمانے پرتیزی ریکارڈ کی گئی۔
چیئرمین کاٹن جنرز فورم احسان الحق نے ”ایکسپریس“ کو بتایا کہ پی سی جی اے کی جانب سے جاری ہونے والے اعدادوشمار کی جانب سے 15 نومبر تک پاکستان بھر کی جننگ فیکٹریوں میں پہنچنے والی روئی کی بیلز کی تعداد 80 لاکھ 19 ہزار 613 بیلز تھی جو کہ پچھلے سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 23فیصد کم ہے تاہم حیران کن طور پر پنجاب میں یہ کمی 33.38 فیصد رہی جبکہ سندھ میں صرف 2.52 فیصد رہی جس کی بڑی وجہ پنجاب میں ظہور پذیر ہونے والی غیر معمولی موسمیاتی تبدیلیاں ہیں تاہم پی سی جی اے کی جانب سے جاری ہونے والی مذکورہ رپورٹ کے بعد یکم سے 15 نومبر تک فروخت ہونے والی روئی کی بیلز کی تعداد کاٹن انڈسٹری میں کافی زیر بحث رہی۔ پی سی جی اے کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ پندھرواڑے کے دوران مجموعی طور پر 13 لاکھ 11 ہزار بیلز فروخت ہوئی۔ کاٹن انڈسٹری سے وابستہ بعض ماہرین کے مطابق روزانہ 87 ہزار 400 بیلز فروخت نہیں ہو سکتیں اور خدشہ ہے کہ پی سی جی اے نے کاٹن جنرز کو فائدہ پہنچنے کیلیے فروخت ہونے والی روئی کی بیلز کی تعداد اصل سے کچھ زیادہ بتائی ہے تاہم پی سی جی اے کے ایک اہم ترجمان نے اس خدشے کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ پی سی جی اے کبھی بھی غلط اعدادوشمار جاری نہیں کرتی اور کاٹن جنرز کو فائدہ پہنچنے کیلیے اعدادوشمار میں ردوبدل کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
انہوں نے بتایا کہ گزشتہ ہفتے کے دوران نیویارک کاٹن ایکسچینج میں حاضر ڈلیوری روئی کے سودے 0.55سینٹ فی پاو¿نڈ اضافے کے ساتھ 69.60 سینٹ فی پاو¿نڈ، مارچ ڈلیوری روئی کے سودے 0.84 سینٹ فی پاو¿نڈ اضافے کے ساتھ 62.83 سینٹ فی پاو¿نڈ، بھارت میں روئی کے سودے 401 روپے فی کینڈی اضافے کے ساتھ 32 ہزار 537 روپے فی کینڈی، چین میں 25 یو ا?ن فی ٹن اضافے کے ساتھ 12 ہزار 305 یو آن فی ٹن، کراچی کاٹن ایسوسی ایشن میں روئی کے اسپاٹ ریٹ 50 روپے فی من اضافے کے ساتھ 5 ہزار 300 روپے فی من تک مستحکم رہے جبکہ پاکستان میں روئی کی قیمتیں 50 روپے فی من اضافے کے ساتھ 5 ہزار 650 روپے فی من تک پہنچ گئیں۔ احسان الحق نے بتایا کہ تقریباً تمام بڑے ٹیکسٹائل گروپس کی جانب سے ڈیوٹی اینڈ ٹیکس ریمیشن اسکیم (ڈی ٹی آر ای ) میں شامل ہونے کے باعث بھارت سے سوتی دھاگے کی درآمد پر بڑھائی جانے والی درآمدی ڈیوٹی کے وہ مقاصد حاصل نہیں ہو سکے جو کہ قبل ازیں متوقع تھے۔
معلوم ہوا ہے کہ بڑے ٹیکسٹائل گروپس کی جانب سے ڈی ٹی آر ای میں شامل ہونے کے باعث سوتی دھاگے کی اندرون ملک قیمتوں میں تیزی کا وہ رجحان سامنے نہیں آسکا تاہم توقع ہے کہ اس سے پاکستانی کاٹن ایکسپورٹس میں خاطر خواہ اضافہ ہونے سے ملکی زرعی مبادلہ کے ذخائر میں بہتری کے ساتھ ساتھ جاری کھاتوں کا خسارہ کم ہونے سے کافی مدد مل سکے گی اور اس سے روئی اور پھٹی کی قیمتوں میں معمولی تیزی کا رجحان بھی سامنے آسکتا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے آئندہ دو ماہ کیلیے اعلان کی جانے والی نئی مانیٹری پالیسی میں شرح سود 6 فیصد پر برقرار رکھنے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسٹیٹ بینک اور حکومتی ادارے آئے روز افراط زر میں مسلسل کمی اور زرمبادلہ کے ذخائر میں ریکارڈ اضافے کی نویدیں سناتے رہتے ہیں جس سے توقع ظاہر کی جا رہی تھی کہ شرح سود میں کم از کم 0.5 فیصد کمی کی جائے گی لیکن اسٹیٹ بینک نے حیران کن طور پر شرح سود کو 6 فیصد تک برقرار رکھا۔
خریداری میں عدم دلچسپی کے باعث روئی کی قیمتوں میں محدود تیزی
23
نومبر 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں