چُپ چُپ کیوں۔۔۔؟

11  فروری‬‮  2015

بچی خاموش طبیعت کے مالک ہوں تو اس میں کوئی برائی نہیں، مگر بعض بچوں کا بہت کم بولنا اور دوسرے لوگوں سے زیادہ گھل مل نہ پانا پریشانی کا سبب بن جاتا ہے۔

خاموش طبیعت اگر عادت بن جائے، تو بچے ’’سوشل فوبیا‘‘ کے شکار بھی ہو سکتے ہیں۔ سب سے پہلے تو ان اسباب کا پتا لگائیں کہ بچہ کم کیوں بولتا ہے۔ اس کا مزاج ایسا کیوں بن گیا ہے کہ اسے اظہار خیال میں دقت محسوس ہوتی ہے۔ بچہ شرم کے مارے کچھ نہیں بول رہا، بچے جیسے جیسے بڑے ہوتے ہیں قدرتی طور پر بدلتے جاتے ہیں۔ اگر عمر کے ساتھ ساتھ تبدیلی نہیں آرہی ہے، تو غور کرنے کی ضرورت ہے۔

آج کل زیادہ تر بچے حاضر جواب اور ہر معاملے میں سرگرم ہوتے ہیں۔ ایسے میں بچے کا خاموش طبیعت ہونا اس کی ترقی میں رکاوٹ ہو سکتا ہے۔ خاموش طبیعت کی وجہ سے کئی بچے تنہائی پسند ہو جاتے ہیں۔ دل میں جو بھی سوالات ہوتے ہیں۔ ان کے بارے میں کھل کر نہ تو بتا پاتے ہیں اور نہ ہی سوال کرتے ہیں۔ یہ مسئلہ آگے چل کر ان کی پورے شخصیت کو متاثر کرتا ہے، اس لیے شروع سے ماں باپ ایسی باتوں پر غور کریں، یہ بہت ضروری ہے۔

بچوں میں خود اعتمادی پیدا کریں، انہیں بے وجہ ڈرائیں، نہ دھمکائیں، کیوں کہ والدین کے ایسے رویے کی وجہ سے بھی بچے اپنے خیالات کا کھل کر اظہار نہیں کر پاتے۔ وہ اپنے دل کی بات دل میں ہی دبا کر رکھتے ہیں۔ بات بات میں بچوں کو ٹوکنا اور انہیں ہر بار غلط ثابت کرنے سے بھی وہ اپنی باتیں، اپنی سوچ شیئر کرنا بند کر دیتے ہیں۔ دھیرے دھیرے ان کی یہ عادت ان کے رویے میں آجاتی ہے اور انہیں خاموش طبیعت کا مالک بنا دیتی ہے۔

خاموش رہنے والے بچے گھر، باہر کہیں بھی کسی سے بھی کھل کر بات نہیں کر پاتے اور دوسرے بچوں سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ قابل ہونے کے باوجود اظہار خیال نہ کر پانے کی وجہ سے وہ جلن اور حسد جیسی بیماری کا بھی شکار ہوجاتے ہیں۔

کئی بار گھر کا ماحول بھی بچوں کو خاموش طبیعت کا بنا دیتا ہے۔ بہت سے والدین ملازمت پیشہ ہیں۔ ایسے میں کئی بچے دن بھر گھر میں اکیلے ہی رہتے ہیں۔ ان کی عادت ہی نہیں رہتی کہ وہ کسی سے اپنے خیالات کا اظہار کریں۔ جب وہ بڑے ہوتے ہیں، تو بہتیری کوششوں کے باوجود وہ اپنے مزاج کو تبدیل نہیں کر پاتے۔ اس لیے جتنی جلد ممکن ہو سکے، ماں باپ کو ایسی باتوں پر توجہ دینا چاہیے، اگر آپ دونوں ملازمت پیشہ ہیں، تو بھی بچوں کے لیے وقت نکالنا چاہیے اور ان سے باتیں کرنی چاہئیں۔

بچوں کو کبھی بھی غصے میں غلط سلط نہ کہیں۔ انہیں غلط طریقے سے مخاطب نہ کریں، نہ ہی انہیں بات بات پہ سزا دیں۔ جو والدین اپنے بچوں کے ساتھ ایسا برتائو کرتے ہیں، وہ بچے بالکل چپ رہنے لگتے ہیں۔ وہ اپنی بات کہنے سے پہلے ہی والدین کے رد عمل کے بارے میں سوچ کر سہمے رہتے ہیں۔ بچے کوئی سوال کریں، تو عمر کے حساب سے انہیں صحیح بات سمجھانے کی کوشش کریں، انہیں ٹالنے یا غلط جواب دینے سے گریز کریں کیوں کہ اس طرح ان کو ملنے والی معلومات اگر الگ الگ اور گُم راہ کن ہوں گی تو وہ خاموش رہنا شروع کر دیں گے۔



کالم



اللہ کے حوالے


سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…

مشہد میں دو دن (آخری حصہ)

ہم اس کے بعد حرم امام رضاؒ کی طرف نکل گئے‘ حضرت…