عشق رسولﷺ میں صحابیاتؓ نے بھی بہت اعلیٰ اور نمایاں مثالیں پیش کیں ان کے سینے عشق نبیﷺ سے معمور تھے۔ اور ان کے پاکیزہ قلوب اس نعمت کے حصول پر مسرور تھے۔ چند مثالیں درج ہیں۔
یک مرتبہ نبی علیہ السلام نے صحابہؓ کو حکم دیا کہ وہ جہاد کی تیاری کریں۔ مدینہ کے ہر گھر میں جہاد کی تیاریاں زور و شور پر تھیں۔ ایک گھر میں ایک صحابیہؓ اپنے معصوم بچے کو گود میں لئے زارو وقطار رو رہی تھی۔
اس کے خاوند پہلے کسی جہاد میں شہید ہو گئے تھے۔ اب گھر میں کوئی بھی ایسا مرد نہ تھا کہ جس کو تیار کر کے نبی علیہ السلام کے ہمراہ جہاد میں بھیجتیں۔ جب بہت دیر تک روتی رہیں اور طبیعت بھر آئی تو اپنے معصوم بیٹے کو سینے سے لگایا اور مسجد نبویؐ میں نبی علیہ السلام کی خدمت میں پیش ہوئیں۔ اپنے بیٹے کو نبی علیہ السلام کی گود میں ڈال کر کہا اے اللہ کے رسولﷺ میرے بیٹے کو بھی جہاد کے لئے قبول فرمائیں۔ نبی علیہ السلام نے حیران ہو کرفرمایا یہ معصوم بچہ جہاد میں کیسے جا سکتا ہے۔ وہ رو کر کہنے لگیں کہ میرے گھر میں کوئی بڑا مرد نہیں کہ جس کو بھیج سکوں آپؐ اسی کو مجاہد کے حوالے کر دیجئے جس کے ہاتھ میں ڈھال نہ ہو تاکہ جب وہ مجاہد کفار کے سامنے مقابلے کیلئے جائے اور کافر تیروں کی بارش برسائیں تو وہ مجاہد تیروں سے بچنے کیلئے میرے بیٹے کو آگے کر دے۔ میرا بیٹا تیروں کو روکنے کے کام آ سکتا ہے۔ سبحان اللہ تاریخ انسانیت ایسی مثالیں پیش کرنے سے قاصر ہے کہ عورت اور ماں جیسی شفیق ہستی فرمان نبویﷺ کو سن کر اس پر عمل پیرا ہونے کیلئے اتنی بے قرار ہوئی کہ معصوم بچے کو شہادت کیلئے پیش کر دیتی ہے۔
سیدہ عائشہؓ کی خدمت میں ایک عورت حاضر ہوئی اورعرض کیا کہ مجھے نبی علیہ السلام کی قبر مبارک کی زیارت کروا دیں۔ سیدہ عائشہؓ نے حجرہ مبارکہ کھولا وہ صحابیہ عشق نبویﷺ میں اس قدر مغلوب تھیں کہ زیارت کر کے روتی رہیں اور روتے روتے انتقال فرما گیءں۔
ایک صحابی حضرت ربیعہ اسلمی نہایت غریب نوجوان تھے۔ ایک مرتبہ تذکرہ چلا کہ انہیں کوئی اپنی بیٹی کا رشتہ دینے کیلئے تیار نہیں ہے۔ نبی علیہ السلام نے انصار کے ایک قبیلے کی نشاندہی کی کہ ان کے پاس جا کر رشتہ مانگو۔ وہ گئے اور بتایا کہ میں نبی علیہ السلام کے مشورے سے حاضر ہوا ہوں تاکہ میرا نکاح فلاں لڑکی سے کر دیا جائے۔ باپ نے کہا بہت اچھا ہم لڑکی سے معلوم کر لیں جب پوچھا تو وہ لڑکی کہنے لگی ابو جان یہ مت دیکھو کہ کون آیا ہے بلکہ یہ دیکھو کہ بھیجنے والا کون ہے۔ چنانچہ فوراً نکاح کر دیا گیا۔
فاطمہ بنت قیس ایک حسین و جمیل صحابیہ تھیں‘ ان کیلئے حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ جیسے دولت مند صحابی کا رشتہ آیا۔ جب انہوں نے نبی علیہ السلام سے مشورہ کیا تو آپؐ نے فرمایا اسامہ سے نکاح کر لو۔ حضرت فاطمہؓ نے آپ کو اپنی قسمت کا مالک بنا دیا اور عرض کی کہ اے رسول اللہﷺ میرا معاملہ آپؐ کے اختیار میں ہے جس سے چاہیں نکاح کر دیں۔ یعنی میرے لئے یہی خوشی کافی ہے کہ آپؐ کے ہاتھو سے میرا نکاح ہو گا (نسائی شریف‘ کتاب نکاح)
نبی علیہ السلام کی سب سے بڑی صاحبزادی حضرت زینب اعلا ن نبوت سے دس سال قبل پیدا ہوئیں۔ جب جوانی کی عمر کو پہنچیں تو اپنے خالہ زاد بھائی ابوالعاص بن ربیع سے نکاح ہوا۔ ہجرت کے وقت نبی علیہ السلام کے ساتھ نہ جا سکیں۔ ان کے خاوند بدر کی لڑائی میں کفار کے طرف سے شریک ہوئے اور مسلمانوں کے ہاتھ گرفتار ہوئے۔ اہل مکہ نے جب اپنے قیدیوں کیلئے فدیے ارسال کئے تو سیدہ حضرت زینبؓ نے بھی اپنے خاوند کی رہائی کیلئے مال بھیجا جس میں وہ ہار بھی تھا جو حضرت خدیجہؓ نے ان کو جہیز میں دیا تھا۔ نبی علیہ السلام نے جب وہ ہار دیکھا تو حضرت خدیجہؓ کی یاد تازہ ہو گئی۔ صحابہؓ سے مشورے میں یہ بات طے پائی کو ابوالعاص کو بلافدیہ چھوڑ دیا جائے۔ اس شرط پر کہ وہ واپس جا کر سیدہ زینبؓ کو مدینہ بھیج دیں۔ نبی علیہ السلام نے دو آدمی سیدہ زینبؓ کو لینے کیلئے ساتھ کر دیئے تاکہ وہ مکہ سے باہر ٹھہر جائیں اور ابوالعاص سیدہ زینبؓ کو ان تک پہنچا دیں۔ سیدہ زینبؓ جب اپنے دیور کنانہ کے ساتھ بیٹھ کر روانہ ہوئیں تو کفار آگ بگولہ ہو گئے۔ چنانچہ انہوں نے سیدہ زینبؓ کو نیزہ مارا جس سے وہ زخمی ہو کر گریں۔ چونکہ حاملہ تھیں اس وجہ سے حمل بھی ضائع ہو گیا۔ کنانہ نے نیزوں سے مقابلہ کیا۔ ابوسفیان نے کہا محمدﷺ کی بیٹی اور اس طرح علی الاعلان جائے۔ یہ ہمیں گوارہ نہیں اس وقت واپس چلو پھر چپکے سے بھیج دینا۔ کنانہ نے اس کو قبول کر لیا۔ چند دن کے بعد پھر حضرت سیدہ زینبؓ کو روانہ کیا گیا۔ سیدہ زینبؓ کا زخم کئی سال تک رہا اور بالآخر اس وجہ سے وفات ہوئی۔ نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ وہ میری سب سے اچھی بیٹی تھی جو میری محبت میں ستائی گئی۔
جنگ احد میں ام عمارہؓ اپنے شوہر حضرت زید بن عاصم اور اپنے دو بیٹوں عمارؓ اور عبداللہؓ کے ہمراہ جنگ میں شریک ہوئیں۔ جب کفار نے نبی علیہ السلام پر ہلہ بول دیا تو یہ نبیﷺ کے قریب آ کر حملہ روکنے والے صحابہؓ میں شامل ہو گئیں۔ ابن کمیہ ملعون نے نبی علیہ السلام پر تلوار کا وار کرنا چاہا تو انہوں نے اس کو اپنے کندھوں پر روکا جس سے بہت گہرا زخم آیا۔ ام عمارہؓ نے پلٹ کر ابن کمیہ ملعون پر بھرپور وار کیا قریب تھا کہ وہ دو ٹکڑے ہو جاتا مگر اس نے دو زرہ پہن رکھیں تھیں لہذا بچ نکلا۔ ام عمارہؓ نے اپنا کپڑا پھاڑ کر زخم کو باندھا اور کہا بیٹا اٹھو! اور اپنے نبیﷺ کی حفاظت کرو۔ اتنے میں وہ کافر جس نے ان کو زخم لگایا تھا پھر قریب آیا۔ نبی علیہ السلام نے فرمایا اے ام عمارؓ تیرے بیٹے کو زخمی کرنے والا یہی کافر ہے۔ ام عمارہؓ نے جھپٹ کر اس کافر کی ٹانگ پر تلوار کا ایسا وار کیا کہ وہ گر پڑا اور وہ چل نہ سکا اور سر کے بل گھسیٹتے ہوئے بھاگا۔ نبیﷺ نے یہ منظر دیکھا تو مسکرا کر فرمایا ام عمارہؓ تو اللہ کا شکر ادا کر جس نے تمہیں جہاد کرنے کی ہمت بخشی۔ ام عمارہؓ نے اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے دل کی حسرت ظاہر کی کہ اے نبیﷺ آپ دعا فرمائیں کہ ہم لوگوں کو جنت میں آپؐ کی خدمت گزاری کا موقع مل جائے۔ نبی علیہ السلام نے اس وقت ان کیلئے‘ ان کے شوہر کے لئے اور دونوں بیٹوں کیلئے دعا فرمائی کہ ’’اے اللہ ان سب کو جنت میں میرا رفیق بنا دے‘‘۔ ام عمارہؓ زندگی بھر یہ بات علی الاعلان کرتی تھیں کہ نبیؐ کی اس دعا کے بعد میرے لئے دنیا کی بڑی سے بڑی مصیبت بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ (مدارج النبوۃ)
حضرت انسؓ کی والدہ ام سلیمؓ گھر کے بچوں کو شیشی دے کر بھیجتیں کہ جب نبی علیہ السلام قیلولہ فرمائیں اور آپؐ کے جسم مبارک پر پسینہ آئے تو اس کے قطرے اس شیشی میں جمع کر لیں‘ چنانچہ وہ اس پسینہ کو اپنی خوشبو میں شامل کرتیں اور پھر اپنے جسم اور کپڑوں پر وہ خوشبو لگاتی تھیں۔ (بخاری کتاب الاستیذان)
غزوہ خیبر میں نبی علیہ السلام نے ایک صحابیہ کو اپنے دست مبارک سے ہار پہنایا وہ اس کی اتنی قدر کرتی تھیں کہ عمر بھر اس کو گلے سے جدا نہ کیا اور جب انتقال کر گئیں تو وصیت کی کہ وہ ہار ان کے ساتھ دفن کیا جائے۔
حضرت سلمیٰؓ ایک صحابیہ تھیں۔ انہوں نے نبی علیہ السلام کی اتنی خدمت کی کہ خادمہ رسولﷺ کا لقب حاصل ہوا۔ ان کی والدہ کے ایک غلام حضرت سفینہ تھے۔ انہوں نے اس کو اس شرط پر آزاد کرنا چاہا کہ وہ ساری زندگی نبی علیہ السلام کی خدمت کریں۔ حضرت سفینہؓ نے کہا کہ آپ یہ شرط بھی نہ لگاتیں تو بھی ساری زندگی اس در کی چاکری میں گزار دیتا۔ (ابوداؤد کتاب الطب باب الحامسہ)۔
ام عطیہ ایک صحابیہ تھیں جب بھی نبی علیہ السلام کا نام نامی اسمی گرامی ان کی زبان پر آتا تو کہتیں میرا باپ قربان اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے دل میں عشق نبویؐ کی شدت کا عالم کیا ہو گا۔
ایک دن نبی علیہ السلام حضرت جابرؓ کے مکان پر تشریف لائے انہوں نے بیوی سے کہا کہ دیکھو نبی علیہ السلام کی دعوت کا خوب اہتمام کرو۔ آپؐ کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ انہیں تمہاری صورت بھی نظر نہ آئے۔ نبی علیہ السلام نے قیلولہ فرمایا تو آپؐ کیلئے بکری کے بچے کا بھنا ہوا گوشت تیار تھا۔ جب آپؐ کھانا کھانے لگے تو بنو سلمی کے لوگ دور سے ہی آپؐ کے دیدار سے مشرف ہوتے رہے کہ آپؐ کو تکلیف نہ ہو۔ جب نبی علیہ السلام رخصت ہونے لگے تو حضرت جابرؓ کی بیوی نے پردے کے پیچھے کہا یا رسول اللہﷺ میرے لئے اور میرے شوہر کے لئے نزول رحمت کی دعا کریں آپؐ نے رحمت کی دعا فرمائی تو زوجہ جابر خوشی سے پھولے نہ سمائیں۔
حضور اکرمﷺ حجتہ الوداع کیلئے تشریف لے گئے تو سب ازواج مطہرات ساتھ تھیں۔ راستے میں حضرت حفصہؓ کا اونٹ تھک کر بیٹھ گیا اور چلتا ہی نہ تھا وہ رونے لگیں۔ آپؐ کو خبر ہوئی تو آپؐ نے اپنے دست مبارک سے ان کے آنسو پونچھے‘
عجیب اتفاق کہ آپؐ جس قدر دلاسا دیتے وہ اسی قدر اور روتیں جب کافی دیر تک چپ نہ ہوئیں تو نبی علیہ السلام نے ان سے اعراض فرمایا تمام صحابہ کو پڑاؤ ڈالنے کا حکم دیا اور خود بھی اپنا خیمہ نصب کروایا۔ حضرت حفصہؓ کو احساس ہوا کہ شاید نبیﷺ مجھ سے خفا ہو گئے ہیں اب نبی علیہ السلام کو منانے اور راضی کرنے کی تدبیریں سوچنے لگیں۔ اس غرض سے سیدہ عائشہؓ کے پاس گئیں اور کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ میں اپنی باری کا دن کسی چیز کے معاوضے میں نہیں دے سکتی لیکن اگر آپ رسول اللہﷺ کو مجھ سے راضی کرا دیں تو میں اپنی باری آپ کو دیتی ہوں۔ سیدہ عائشہؓ نے آمادگی ظاہر کی اور ایک دوپٹہ اوڑھا جو زعفرانی رنگ میں رنگا ہوا تھا پھر اس پر پانی چھڑکا تاکہ خوشبو پھیلے اس کے بعد نبی علیہ السلام کے پاس گئیں اور خیمہ کا پردہ اٹھایا۔ نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ عائشہؓ یہ تمہارا دن نہیں ہے۔ بولیں ’’یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ جس کو چاہتا ہے دے دیتا ہے‘‘۔ (مسند ابن حنبل 6/338)
ایک مرتبہ نبی علیہ السلام مسجد سے باہر نکلے راستے میں مرد اور عورتیں فراغت پر گھر واپس جا رہی تھیں۔ نبی علیہ اسلام نے عورتوں کو مخاطب کر کے کہا کہ تم پیچھے اور ایک طرف رہو۔ وسط راہ سے نہ گزرو۔
اس کے بعد یہ حال ہو گیا کہ عورتیں اس قدر گلی کے کنارے پر چلتیں کہ ان کے کپڑے دیواروں سے الجھ جاتے۔(ابوداؤد۔ کتاب الاداب)
نبی علیہ السلام نے شوہر کے علاوہ دوسرے محرم مردوں کی وفات پر تین دن سوگ کیلئے متعین فرمائے ہیں صحابیات اس کی بہت شدت سے پابندی کرتی تھیں۔ سیدہ زینب بنت حجش کے بھائی کا انتقال ہو گیا تو چوتھے روز انہوں نے خوشبو منگا کر لگائی اور فرمایا مجھے اس کی ضرورت نہ تھی لیکن نبی علیہ السلام کا فرمان سنا ہے کہ شوہر کے سوا تین دن سے زیادہ کسی کا سوگ جائزہ نہیں۔ اس لئے یہ اسی حکم کی تعمیل تھی۔ (ابوداؤد
ایک مرتبہ نبی علیہ السلام نے پانی یا دودھ پی کر حضرت ام ہانی کو عنایت فرمایا۔ انہوں نے عرض کیا کہ اگرچہ میں روزے سے ہوں لیکن آپ کا جھوٹا واپس کرنا پسند نہیں کرتی۔ (مقصد یہ تھا کہ میں روزے کی پھر قضا کر لوں گی اور پانی نوش کر لیا۔ (مسند احمد بن حنبل)
ایک دن حضرت حذیفہؓ کی والدہ نے ان سے پوچھا بیٹا! تم مجھے اپنے کام میں مشغول نظر آتے ہو‘ تم نے نبی علیہ السلام کی زیارت کب کی تھی؟ انہوں نے کہا اتنے دنوں پہلے۔
اس پر والدہ نے ان کو سخت سست کہا بولے میں ابھی جا کر مغرب کی نماز نبی علیہ السلام کے ساتھ ادا کرتا ہوں۔ اور اپنے لئے اور آپ کیلئے استفغار کی درخواست کرتا ہوں۔ (ترمذی کتاب المناقب)
جب نبی علیہ السلام نے اس دارفانی سے پردہ فرمایا تو سیدہ عائشہؓ نے اس عظیم سانحہ پر اپنے رنج و الم کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا ہائے افسوس! وہ پیارے نبی علیہ السلام جس نے فقر کو غنا پر‘ مسکینی کو دولت مندی پر ترجیح دی۔ افسوس وہ معلوم کائنات جو گنہگار امت کی فکر میں پوری رات آرام سے سو نہ سکے ہم سے رخصت ہو گئے۔ جس نے ہمیشہ صبر و استقامت سے اپنے نفس کے ساتھ مقابلہ کیا جس نے برائیوں کی طرف کبھی دھیان نہ دیا اور جس نے نیکی اور احسان کے دروازے ضرورت مندوں پر کبھی بند نہ کئے۔ جس روشن ضمیر کے دامن پر دشمنوں کی ایذا رسانی کا گردو غبار کبھی نہ بیٹھا۔
سیدہ فاطمتہ الزہراؓ نے نبی علیہ اسلام کے پردہ فرمانے پر کہا۔ میرے والد گرامی نے دعوت حق کو قبول فرمایا اور فردوس بریں میں نزول فرمایا۔ الٰہی روح فاطمہ کو جلدی روح محمدؐ سے ملا دے۔ الٰہی مجھے دیدار رسولﷺ سے مسرور بنا دے۔ الٰہی مجھے اس مصیبت کو جھیلنے کے ثواب سے محروم نہ فرمانا اور روز محشر محمدﷺ کی شفاعت نصیب کرنا۔