بحیثیت مسلمان ہماراعقیدہ کہ تمام قدرت اللہ رب العزت کے پاس ہی ہے ۔ جب جب جو بھی ہو تا ہے وہ بس اُس کن فیکون کی شان قدرت رکھنے والے مولیٰ کریم ہی کی منشا سے ہوتا ہے اور مومنوں کو حکم دیاگیاہے کہ جب بھی مستقبل کے حوالے سے کوئی بات کریں تو ساتھ انشا ء اللہ ضرور کہیں ۔ یہ بات مومنوں کوجناب نبی کریم ﷺ کے ذریعے سکھائی گئی ۔
مفسرین کے مطابق جب کفار مکہ نے آپﷺ سے اصحاب کہف وغیرہ کے متعلق سوال کیا تو آپ ﷺ نے انھیں جواب دیا کہ میں کل ان کا جواب دوں گا۔آپ ﷺ کا خیال یہ تھا کہ دریں اثناء شاید جبرئیلؑ آئے تو ان سے پوچھ کر بتا دوں گا یا اللہ تعالیٰ از خود کل تک بذریعہ وحی مطلع کر دے مگر کل تک ان دونوں میں کوئی بات بھی نہ ہوئی پھر چند دن بعد جبرئیلؑ وحی لے کر اس سورہ کی آیات لے کر آئے اور ساتھ ہی آپ ﷺ کے لیے یہ ہدایت بھی نازل ہوئی کہ کسی سے ایسا حتمی وعدہ نہ کیا کریں کہ میں کل تک یہ کام کردوں گا اور اگر وعدہ کرنا ہی ہو تو ساتھ الا ماشاء اللہ ضرور کہا کریں (یعنی اگر اللہ کو منظور ہوا تو فلاں وقت تک فلاں کام کروں گا) اور اگر کبھی آپ یہ بات کہنا بھول جائیں تو جس وقت یاد آئے اسی وقت کہہ لیا کریں۔ مطلب یہ ہے کہ ہر کام اللہ کی مشیئت کے تحت ہی ہوتا ہے لہذا اس بات کو ہر وقت ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔ یہ ہدایت اس لیے دی گئی تھی کہ کسی کو یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ وہ کل تک یا فلاں وقت تک فلاں کام کرسکے گا یا نہیں یا کسی کو غیب کا علم حاصل ہے اور نہ کوئی اپنے افعال میں خود مختار ہے کہ جو چاہے کرسکے لہذا کوئی شخص خواہ پورے صدق دل اور سچی نیت سے بھی کوئی وعدہ یا مستقبل کے متعلق بات کرے تو اسے ان شاء اللہ ضرور کہہ لینا چاہیئے۔