پیر‬‮ ، 04 اگست‬‮ 2025 

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں الیکشن ایکٹ ترمیمی بل اورنیب آر ڈیننس ترمیمی بل کثرت رائے سے منظور

datetime 10  جون‬‮  2022
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (این این آئی)پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں جی ڈ ی اے کی مخالفت کے باوجود صدر کی جانب سے واپس بھیجا گیا الیکشن ایکٹ ترمیمی بل 2022 اور نیب آرڈیننس ترمیمی بل کثرت رائے سے منظور کر لیے گئے۔۔جمعہ کو پارلیمنٹ ہاؤس میں ایوان بالا اور ایوان زیریں

کا مشترکہ اجلاس ہوا ،پی ٹی آئی کے سینیٹرز نے مشترکہ اجلاس کا غیر اعلانیہ بائیکاٹ کیا ہے، اس لیے پی ٹی آئی کا کوئی رکن پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شریک نہیں ہوا ۔اجلاس کے دور ان وفاقی وزیر پارلیمانی امور مرتضی جاوید عباسی نے تحریک پیش کی کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کی جانب سے منظور کیا گیا اور صدر کی جانب سے واپس بھیجا گیا انتخابی قانون 2017 میں مزید ترمیم کرنے کا بل انتخابات (ترمیمی) بل 2022 دستور کے آرٹیکل 57 کی شق 2 کے تحت فی الفور زیر غور لایا جائے۔ وفاقی وزیر پارلیمانی امور مرتضی جاوید عباسی نے صدر مملکت کی جانب سے بل واپس بھجوائے جانے کے ساتھ دی گئی تجاویز کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ صدر مملکت نے انتخابات (ترمیمی) بل 2022 پر اعتراضات کے ساتھ واپس کیا، اس پر ہدایت کی کہ اس پر ازسر نو غور کیا جائے۔ قائمہ کمیٹیوں میں زیر بحث لایا جائے، یہ احکامات آرٹیکل 65 کی شق 2 کی خلاف ورزی ہے، وہ صرف نظرثانی کا کہہ سکتے ہیں، ہمیں یہ توقع نہیں تھی کہ صدر مملکت آئین سے بالاتر ہیں، صدر کو آئینی عہدے کے تقدس کا خیال رکھنا چاہیے، اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کیلئے عدالت کے حکم پر کیا گیا، اس کے طریقہ کار سے الیکشن کمیشن مطمئن ہو، 2018 کے بعد ان کی جماعت کی حکومت تھی، ان کے اقدامات کے بارے میں بتایا جائے کہ وہ اقدامات مخلصانہ ہیں،

صدر مملکت نے الیکٹرانک ووٹنگ کے حوالے سے اجلاسوں کی صدارت کی، باہر سے ایک کمپنی ہائر کی گئی جس نے نادرا کے سسٹم کا جائزہ لے کر اسے اس کام کیلئے ناکارہ قرار دیا، نادرا نے دسمبر 2021 کا وقت دیا تاہم حکومت نے اس پر کوئی معاہدہ نہیں کیا، حکومت نے الیکشن کمیشن کو پیسے نہیں دیئے، نادرا نے کام بھی شروع نہیں کیا، بیرون ملک پاکستانیوں کی رجسٹریشن نہیں ہو سکی، ہم پائلٹ پراجیکٹ چاہتے تے، حکومت نے بیرون

ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دیا تھا جب ان کے رہنے والے ملک میں الیکشن ہو رہے ہوں، اس آرڈیننس کو ایکٹ بنانے کا بل قائمہ کمیٹی نے مسترد کر دیا، پھر مشترکہ اجلاس بلایا گیا تاہم اس میں ایک تبدیل شدہ بل منظور کیا گیا، ضمنی انتخابات میں تارکین وطن کی رپورٹ ایوان میں زیر بحث نہیں لائی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ آئین کے مطابق بیرون ملک کام کرنے والے پاکستانی کو حق ووٹنگ ملنا چاہیے، صدر مملکت کو ان کے مشیر ایسی تجاویز دیتے

ہیں جو آئین سے انحراف ہے، آئینی عہدے پر بیٹھا شخص پارٹی ورکر اور عہدیدار کا کردار ادا کر رہا ہے، ایک سسٹم بنے جس پر الیکشن کمیشن مطمئن ہو پھر اس کے آڈٹ کی بات ہو سکتی ہے، گزشتہ حکومت نے تارکین وطن سے غلط بیانی کی، تقریروں کے علاوہ عملی کام کچھ نہیں کیا، ای وی ایم کا استعمال دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے ترک کیوں کیا، وہ اس سے بیلٹ پیپر کی طرف کیوں گئے، صدر مملکت نے تنازعہ کی صورت میں بیلٹ شمار

کرنے کی بات کر کے اپنی بات کی نفی کی ہے، الیکشن کمیشن کی جانب سے چار حلقوں میں 100 مشینوں کے استعمال کا کریڈٹ لیتے ہیں، اس کی رپورٹ کے مطابق 100 مشینوں کی کارکردگی کی شرح 50 فیصد تھی، اگر یہی شرح 8 لاکھ مشینوں میں ہو تو آدھے ملک میں انتخابات رد ہو جائیں گے، صدر نے وزارت سائنس وٹیکنالوجی کی تعریف کی کہ انہوں نے ای وی ایم بنائی تاہم وزارت نے الیکشن کمیشن کے مطالبہ پر یہ مشین مہیا نہیں کر

سکے، گزشتہ حکومت کی قانون سازی ناقص تھی، اس میں ترامیم میں رولز کی خلاف ورزی کی گئی، صدر مملکت نے آئین کی خلاف ورزیاں کیں، کیا گزشتہ حکومت ان سے قانون سازی کی منظوری لیتی تھی؟ صدر مملکت کے خدشات بے معنی ہین ہم نے ایکشن کمیشن کے خط پر یہ قانون سازی کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس ادارے نے الیکشن کرانے ہیں، اگر وہ مطمئن نہیں ہے تو کیسے صاف و شفاف انتخابات ہو سکتے ہیں۔ وزیر قانون و انصاف

سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ صدر مملکت کی جانب سے اٹھائے گئے تمام خدشات کا جواب دے دیا گیا ہے، ہم پارلیمانی نظام کا حصہ ہیں، صدر آئینی سربراہ ہیں، وہ اس ایوان کو درخواست کر سکتے ہیں حکم نہیں دے سکتے، قانون سازی اس ادارے کی صوابدید ہے۔ سینیٹر مشتاق احمد خان نے شق تین میں ترمیم پیش کی کہ قومی اسمبلی میں متناسب نمائندگی کی بنیاد پر تارکین وطن کے لئے نشستیں مختص کی جائیں، انتخابی قوانین اور احتساب قوانین پر

اتفاق رائے ضروری ہے، گزشتہ حکومت نے اس ایوان کے ساتھ کھلواڑ کیا، انہوں نے عجلت میں قانون سازی کی، اس پر بھی اتفاق رائے نہیں تھا، ہمارے تحفظات تھے، قوم نے یکطرفہ قانون سازی قبول نہیں کی، انتخابی قوانین پر تمام فریقین کو اعتماد میں لیا جائے، 120 دنوں تک حلف نہ لینے والے کی رکنیت ختم ہونی چاہیے، تارکین وطن پاکستانیوں کا ہماری معیشت میں بڑا کردار ہے، 90 لاکھ پاکستانی بیرون ملک ہیں اور اداروں نے 20 ارب ڈالر

امداد دی جبکہ تارکین وطن نے پانچ سال میں 145 ارب ڈالر کا ترسیلات زر بھجواتے ہیں۔ وزیر قانون نے رکن کی ترمیم کی مخالفت کی، تارکین وطن کے لئے نشستیں مختص کرنے کیلئے قانون سازی درکار ہے، اس کے لئے عملی کام کریں گے، پاکستانی تارکین وطن ہمارا سرمایہ اور فخر ہیں، ان کے ووٹ کا حق ختم نہیں کیا جائے گا۔ سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ یہ ترمیم اس سیشن میں نہیں ڈالی جانی چاہیے تھی، اگر صدر کی جانب سے کوئی

ترمیم ہوتی تو اس کو کر لیا جانا چاہیے، اس میں دیگر کسی رکن کی جانب سے ترمیم نہیں لائی جانی چاہیے۔ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ صدر اگر کوئی بل واپس بھیجتا ے تو اس کے ساتھ وہ اپنی تجاویز یا ترامیم دیتا ہے، یہ بل صدر نے واپس غور کے لئے بھجوایا ہے۔ یہ بل قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پاس ہو چکا ہے۔ وزیر قانون نے میاں رضا ربانی اور فاروق ایچ نائیک کے موقف سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ صدر کی جانب سے اگر کوئی ترامیم ہیں

تو ان پر غور کیا جا سکتا ہے، باقی ترامیم نہیں لی جا سکیں۔ سپیکر نے رولنگ دی کہ اس موقع پر کسی رکن کی جانب سے ترامیم نہیں لائی جا سکتیں۔ ایوان سے تحریک کی منظوری کے بعد انہوں نے علیحدہ فہرست میں درج ترامیم پیش کیں جس کی ایوان نے منظوری دی۔ بعد ازاں ایوان سے شق وار منظوری کے بعد مرتضی جاوید عباسی نے بل ایوان میں منظوری کے لئے پیش کیا جسے منظور کر لیا گیا۔مشترکہ اجلاس کے دوران مجلس شوریٰ نے

نیشنل انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ بل 2022 کی منظوری دی، بل وزیر آئی ٹی امین الحق نے پیش کیا۔نیب آرڈیننس 1999 میں ترمیم کا بل بھی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پیش کیا گیا، بل وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے پیش کیا۔وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ نیب ترمیمی بل دونوں ایوانوں میں دو زبانوں میں پیش کیے گئے، ان بلز پر گھنٹوں بحث کی گئی، صدر مملکت نے اپنی سیاسی جماعت کی خواہش پر ان کو واپس بھیجا، بل کی پچاسی فیصد

شقوں سے صدر مملکت متفق ہیں۔غوث بخش مہر نے کہا کہ صدر مملکت نے جو ترامیم بھیجی ہیں انہیں مسترد کرنے کی بجائے متعلقہ کمیٹی کو بھیجے۔اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ آئین میں ایسی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ ترامیم کو لیا جائے۔خواجہ آصف نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ قوانین دونوں ایوان نے سیر حاصل بحث کے بعد منظور کئے ہیں، مجھے بتائیں کہ مشترکہ اجلاس کے حوالے سے کونسی کمیٹی کو یہ ترامیم بھجوائیں؟ اس کی اجازت نہ آئین دیتا ہے نہ ہی اس کی اجازت قواعد دیتے ہیں،

سابق دور میں تین درجن کے قریب اس ایوان میں بل ہر چیز کو بلڈوز کرکے منظور کروائے گئے۔سینیٹر مشتاق نے اپنی ترامیم پیش کرنے اجازت طلب کی جس پر اسپیکر قومی اسمبلی نے مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس کی آئین اور رولز اجازت نہیں دیتے تو کیسے اجازت دیں اس پر جماعت اسلامی کے ارکان مولانا عبدالاکبر چترالی اور سینیٹر مشتاق نے احتجاج کیا۔نیب آرڈیننس میں ترمیم کے بل کی شق وار منظوری لی گئی، مجلس شوریٰ نے نیب آرڈیننس 1999 میں ترمیم کا بل کثرت رائے سے منظور کرلیا جب کہ صدر مملکت کی جانب سے بھجوائی گئی ترامیم کثرت رائے سے مسترد کردی گئیں۔بعد ازاں پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس 20 جولائی بروز بدھ سہ پہر 4 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔

موضوعات:



کالم



سات سچائیاں


وہ سرخ آنکھوں سے ہمیں گھور رہا تھا‘ اس کی نوکیلی…

ماں کی محبت کے 4800 سال

آج سے پانچ ہزار سال قبل تائی چنگ کی جگہ کوئی نامعلوم…

سچا اور کھرا انقلابی لیڈر

باپ کی تنخواہ صرف سولہ سو روپے تھے‘ اتنی قلیل…

کرایہ

میں نے پانی دیا اور انہوں نے پیار سے پودے پر ہاتھ…

وہ دن دور نہیں

پہلا پیشہ گھڑیاں تھا‘ وہ ہول سیلر سے سستی گھڑیاں…

نیند کا ثواب

’’میرا خیال ہے آپ زیادہ بھوکے ہیں‘‘ اس نے مسکراتے…

حقیقتیں(دوسرا حصہ)

کامیابی آپ کو نہ ماننے والے لوگ آپ کی کامیابی…

کاش کوئی بتا دے

مارس چاکلیٹ بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی…

کان پکڑ لیں

ڈاکٹر عبدالقدیر سے میری آخری ملاقات فلائیٹ میں…

ساڑھے چار سیکنڈ

نیاز احمد کی عمر صرف 36 برس تھی‘ اردو کے استاد…

وائے می ناٹ(پارٹ ٹو)

دنیا میں اوسط عمر میں اضافہ ہو چکا ہے‘ ہمیں اب…