اسلام آباد (این این آئی)منحرف اراکین پارلیمنٹ سے متعلق آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے صدارتی ریفرنس کا فیصلہ سپریم کورٹ نے تین، دو کی اکثریت سے سنایا ہے، بینچ کے دو ججز جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے فیصلے سے اختلاف کیا ہے۔چیف جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ کے دو ججز جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے
اختلافی نوٹ لکھے جبکہ جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر نے اکثریتی رائے دی۔جسٹس مظہر عالم اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے اختلافی نوٹ لکھا جس میں کہا گیا کہ اکثریتی فیصلے سے متفق نہیں ہیں، آرٹیکل 63 اے انحراف اور اس کے نتائج پر مکمل ضابطہ ہے، کسی رکن کے انحراف پر الیکشن کمیشن پارٹی سربراہ کے ڈیکلریشن کے مطابق ڈی سیٹ کرتا ہے۔جسٹس مظہر عالم اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ انحراف کرنے والے رکن کا ووٹ شمار ہوگا پر پارلیمان کے پاس اختیار ہے کہ اس پر قانون سازی کرے،آرٹیکل 63 اے میں ڈی سیٹ کے بعد رکن کے پاس سپریم کورٹ سے رجوع کا آپشن موجود ہے، آرٹیکل 63 ایکی اس سے زیادہ تشریح آئین پاکستان دوبارہ لکھنے کے مترادف ہوگی، صدرمملکت نے سپریم کورٹ سے دوبارہ آئین لکھنے سے متعلق رائے نہیں مانگی۔اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ صدر کے ریفرنس میں پوچھے گئے سوالات میں کوئی جان نہیں، ان سوالات کاجواب منفی ہے، صدر کے ریفرنس میں پوچھے گئے سوالات میں کوئی جان نہیں، ان سوالات کاجواب ناں میں دیاجاتا ہے، اگرپارلیمنٹ مناسب سمجھے تو منحرف ارکان پر مزید پابندیاں عائدکرسکتی ہے۔خیال رہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے جاری مختصر تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ آرٹیکل 63 اے کو اکیلے نہیں پڑھا جاسکتا، آ رٹیکل 63 اے کو آئین میں موجود شقوں سے الگ کرکے بھی نہیں پڑھا جاسکتا، آرٹیکل 63 اے کا اطلاق منحرف رکن کے ووٹ دینے کے وقت سے نہیں ہوتا، آرٹیکل 63اے کا اطلاق پارلیمانی پارٹی ہدایات سے انحراف سے ہوتا ہے۔تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ آرٹیکل 63 اے آرٹیکل 17 ٹو میں دئیے گئے سیاسی جماعتوں کے حقوق کاتحفظ کرتا ہے، آرٹیکل63 اے قانون سازی میں سیاسی جماعتوں کو تحفظ دیتا ہے، سیاسی جماعتیں ہماری جمہوریت کا بنیادی جز ہیں، سیاسی جماعتوں میں عدم استحکام جمہوریت کی بنیاد ہلاتا ہے، انحراف سیاسی جماعتوں کے استحکام کے لیے تباہ کن ہے، انحراف کو کینسر قرار دینا درست ہے، موزوں یہی ہیکہ انحراف ہونا ہی نہیں چاہیے، سیاسی جماعتوں کی ہم آہنگی کا احترام کیا جانا چاہیے، سیاسی جماعتوں کو غیر آئینی، غیرقانونی حملوں اور توڑپھوڑ سے محفوظ رکھا جائے، تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ پارلیمانی پارٹی کی ہدایات کے خلاف رکن کا ووٹ شمار نہیں ہوگا۔