اسلام آباد (این این آئی)وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ انصاف کے حصول کیلئے جانا سپریم کورٹ ہی پڑیگا ٗپاناما کیس میں نتائج کا اندازہ ہونے کے باوجود نظرثانی اپیل میں گئے ٗمیڈیا سے بات کرتے ہوئے خواجہ سعد رفیق نے کہاکہ ایسے لوگ موجود ہیں جو اداروں کو جھوٹی اور بے بنیاد رپورٹس دیتے ہیں ٗاداروں کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی کوشش کرنے والے
پاکستان کے ساتھ مخلص نہیں اور پاکستان ادارہ جاتی محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے کہا کہ ملک میں انتشار برداشت نہیں کرسکتے ٗسیاسی قیادت کو داغ دار کرنے کا سلسلہ جاری رہے گا تو اس سے ملک میں کبھی بہتری پیدا نہیں ہوسکتی۔خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ گاڈ فادر اور مافیا جیسے ریمارکس آئیں گے تو اس کا مہذب انداز میں جواب دیا جائیگاٗ معزز جج صاحبان کا وقار اور احترام سر آنکھوں پر لیکن بغیر ثبوت اور دلیل کے اگر کسی پر غیر محتاط الفاظ استعمال کرے تو اسے تسلیم اور قبول نہیں کیا جائیگا ٗ ہماری بھی عزت نفس ہے اور عزت نفس کا تحفظ کرنا آتا ہے۔رہنما (ن )لیگ نے کہاکہ وہ لوگ جو کمروں میں بیٹھ کر سوچتے ہیں کہ جمہوریت کا کوئی اور چہرہ بنا کر پیش کیا جائے تو وہ مہربانی کر کے ان خیالات کو جھٹک دیں۔وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ غلطیوں کو دہرا کر ملک آگے نہیں جائیگا ٗ ایسے ماحول میں جب امریکی صدر خوفناک بیان دے چکے ہیں جسے آسان نہیں لیا جانا چاہیے ٗبرکس اعلامیے میں بھی کچھ ایسی باتیں کی گئی ہیں جو پاکستان کے مفادات کے خلاف ہیں۔خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ دو صوبوں میں ہماری حکومت ہے اور کسی بھی نوعیت کے فیصلے اور سازش کے باوجود عوام میں نواز شریف کی محبت میں کمی واقع نہیں ہوئی جس کا اظہار 17 ستمبر کو این اے 120 کے
عوام کریں گے۔ سعد رفیق نے کہاکہ ملتان اور لاہور میں وکلا کے جھگڑے اور عدالت میں ہونے والے ہنگامے پر حکومت نے قانون کے مطابق عدلیہ کو تحفظ دیا، ہمیں یہ اطلاعات موصول ہوئیں کہ بعض حلقے معزز جج صاحبان کو رپورٹ دے رہے ہیں کہ وکلا کو حکومت میں موجود ایک شخصیت کی سپورٹ حاصل ہے تاہم ان شخصیت نے اپنی پوزیشن کو واضح کیا ٗ عدلیہ کے
وقار کو تحفظ اور لاقانونیت کو روکنا حکومتی اداروں کی ذمہ داری ہے۔سعد رفیق نے کہاکہ جو لوگ یہ سوچتے ہیں کہ کسی طرح یہ جمہوریت منہدم ہوجائے یا اس کی شکل مسخ کردی جائے تو وہ اس خیال کو جھٹک دیں، کرپشن ختم کرنے کے نام جو یک طرفہ پرروڈ رولرچلایا گیا ہے کیا یہ پاکستان کو آگے لے جائیگا، یہ ہمارا ہی حوصلہ ہے کہ ہم یہ سب دیکھ رہے ہیں اور اس کے
باوجود ہم قانون کا دامن بھی نہیں چھوڑتے اور نہ آئین کے دائرے سے بھی باہر نہیں نکلتے، ہمیں غلطی کو دہرانے کے بجائے اس سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ جو واقعہ جسٹس سجاد علی شاہ کے دور میں ہوا تھا،یہ واقعہ سپریم کورٹ پر حملہ نہیں تھا ،اس تلخ تجربے کے بعد دوبارہ ایسا واقعہ نہیں پیش آنا چاہیے ،جسٹس سجاد علی شاہ کے دور
میں بھی لیگی کارکنوں کو شاہراہ دستور پر نہیں آنا چاہیے تھا ۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور وزیر مملکت برائے امور داخلہ طلال چوہدری نے کہا ہے کہ ہماری نظر ثانی کی اپیل پر نظر ثانی ہوئی ہی نہیں‘ ہمارا کیس تھا کہ ہمیں ٹرائل کے بعد کوئی سزا دی جائے اور اپیل کا حق ہونا چاہیے، دہشت گردوں کو بھی اپیل کا حق ملتا ہے لیکن وزیراعظم کو نہیں ملا ‘ہم نے نظام عدل کے
سامنے پیش ہوکر اس کی خامیوں کو نمایاں کیا‘ایک وزیراعظم کو انصاف نہیں ملا تو عام آدمی کو کیسے ملے گا‘قانونی اور سیاسی مشاورت کے بعد عدالتی فیصلے پر اپنا فیصلہ کریں گے۔ جمعہ کو پاناما کیس نظر ثانی اپیلوں پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے طلال چوہدری نے کہا کہ ہماری نظرثانی کی اپیل پر نظر ثانی ہوئی ہی نہیں، ہے،ہمارا کیس تھا
کہ ہمیں ٹرائل کے بعد کوئی سزا دی جائے اور اپیل کا حق ہونا چاہیے، دہشت گردوں کو بھی اپیل کا حق ملتا ہے لیکن وزیراعظم کو نہیں ملا اور اس کے بغیر ہی نااہلی ہوگئی۔طلال چوہدری نے کہا کہ ہماری بنیادی اپیل یہ تھی کہ اس کیس میں بہت ساری چیزیں پہلی بار ہوئیں لیکن فری ٹرائل اور اپیل کے حق پر نظر نہیں ہوئی۔ان کا کہنا تھا کہ ہم نے نظام عدل کے سامنے پیش ہوکر اس کی
خامیوں کو نمایاں کیا، ہم اسی لیے گرینڈ ڈائیلاگ کی بات کررہے ہیں کیونکہ ایک وزیراعظم کو انصاف نہیں ملا تو عام آدمی کو کیسے ملے گا۔(ن) لیگ کے رہنما نے مزید کہا کہ یہ وہ تمام چیزیں ہیں جو ہم نے عوام کے سامنے رکھیں اور ہم اب عوام کا فیصلہ چاہتے ہیں۔طلال چوہدری کا کہنا تھا کہ قانونی اور سیاسی مشاورت کے بعد عدالتی فیصلے پر اپنا فیصلہ کریں گے۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی بیرسٹر ظفر اللہ نے کہا ہے کہ ہم عدلیہ کا احترام کرتے ہیں اور اس کا حکم مانتے ہیں مگر اسے غیر منصفانہ سمجھتے ہیں۔ نواز شریف کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ اس فیصلے کے دورس نتائج ہوں گے الیکشن کے قانون‘ آرٹیکل 62 ون ایف کے حوالے سے‘ ہم سمجھتے تھے کہ اس کیس میں گنجائش ہے‘ تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد
ہی حتمی رائے دی جاسکے گی۔ جمعہ کو سلمان اکرم راجہ نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے کے دورس نتائج ہوں گے الیکشن کے قانون کے حوالے سے بھی آرٹیکل 62 ون ایف کے حوالے سے بھی ہمارے ملک کا نظام ارتقاء کے عمل سے گزر رہا ہے نظر ثانی کیس کم ہی کامیاب ہوتے ہیں اس کیس میں ہم سمجھتے تھے کہ گنجائش تھی جب تفصیلی فیصلہ آئے گا
تو دیکھیں گے کہ کس بنیاد پر سپریم کورٹ نے سمجھا کہ وہ گنجائش بھی نہیں بنتی اس کیس میں بھاری بھر کم باتیں تھیں کیپٹل ایف زیڈ ای کے حوالے سے کاغذات نامزدگی میں کوئی اثاثہ رہ جائے اس پر قانون یہ بڑے نکتے تھے۔ سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے بیرسٹرظفراللہ نے کہا کہ ہم پاکستان کے نظام اورآئین پر یقین رکھتے ہیں ٗ عدلیہ نے جب جب بلایا
اس کا حکم مانتے ہوئے جے آئی ٹی میں پیش ہوئے ٗہم نے کبھی عدالتی حکم کی خلاف ورزی نہیں کی تاہم پرویز مشرف آج تک کسی جے آئی ٹی میں پیش نہیں ہوئے۔ ہم عدالت کا حکم مانتے ہیں اور اس کے فیصلوں کا احترام کرتے ہیں مگر اسے غیر منصفانہ سمجھتے ہیں عدالت نے پاناما کیس میں منصفانہ فیصلہ نہیں کیا، ہمارے حقوق مجروح ہونے کا اندیشہ ہے، ہمیں فیئر ٹرائل کا
حق ملا نہ انصاف کے تقاضے پورے ہوئے لیکن ہم عدالتی نظام کی بہتری کیلئے ہر قربانی دیں گے اور ہماری قربانی کا عمل تب تک جاری رہے گا جب تک عدالتیں منصفانہ فیصلے نہیں کرتیں۔ انہوںنے کہاکہ میری رائے میں یہ فیصلہ ایسے ہی ہے جیسے مولوی تمیزالدین کا کیس تھا ٗ یا بھٹو کیس تھا ٗ ہم نے یہ فیصلہ ماننا ہے اور ہم اسے مانیں گے اور سسٹم کو اور بہتر کرنے کی کوشش کریں گے،
حدیبیہ کیس کا فیصلہ آئیگا تو اس سے بھی آسمان نہیں گریگا اسے بھی دیکھ لیں گے۔بیرسٹر ظفراللہ نے کہاکہ پاکستان کے آئین میں 184/3 میں اپیل کا حق موجود نہیں ہے اس لیے اس میں ترمیم کا بل بنایا تھا تاہم پیش اس لیے نہیں کیا تاکہ لوگ یہ نہ کہیں کہ نواز شریف کو بچانے کیلئے یہ سب کام کیا جا رہا ہے لیکن اب اسے منظور کریں گے۔انہوںنے کہاکہ وہ سینکڑوں ججز کو جانتے ہیں
جن پر کرپشن کے الزامات ہیںلاہور ہائی کورٹ کے ایک جج کا نام بھی پاناما پیپرز میں شامل ہے لیکن اس کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوتی؟۔اس موقع پر وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنا لوجی انوشے رحمان نے کہا کہ نواز شریف اور ان کے بچوں کی نظر ثانی درخواستوں کو خارج کردیا گیا جبکہ درخواستوں پر نظر ثانی کی گنجائش موجود تھی، عدالتی فیصلے سے مایوسی ہوئی ہے،
نواز شریف کی جن بنیادوں پر نااہلی ہوئی وہ کیس کی درخواست کا حصہ نہ تھی ،تنخواہ نہ لینے کی وجہ کو نظر ثانی درخواست میں ختم کیا جاسکتا تھا، سپریم کورٹ کے حکم پر نیب کے کیسز درج ہونے سے انصاف نہیں مل سکتا۔