سلام آباد (نیوزڈیسک) سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے کیبنٹ سیکرٹریٹ نے پی آئی اے کو پبلک لمیٹڈ کمپنی بنانے کی شدیدا مخالفت کرتے ہوئے انتظامی بل کو متفقہ طور پر مسترد کر دیا ،کمیٹی میں شامل جے یوآئی ،مسلم لیگ ن ،پی ٹی آئی ،اے این پی،ایم کیو ایم،مسلم لیگ ق کے سینیٹرز نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے جلد بازی میں فیصلوں کو ملکی مفاد کے منافی قرار دیدیا ہے ،پی آئی اے ملک کا قیمتی اثاثہ ہے اس کے بارے میں بہت سی چیزوں کو واضح کرنے کی ضرورت ہے بل کیلئے دیا جانے والا وقت ناکافی ہے مختصر وقت میں تمام چیزوں کا جائزہ نہیں لیا جا سکتا ہے ۔قائمہ کمیٹی کا ا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد طلحہ محمود کی زیر صدارت پارلیمنٹ لاجز کے کانفرنس ہال میں منعقد ہوا ۔قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان بین الاقوامی ایئر لائنزکارپویشن کو بطور کمپنی محدود عامہ کے قیام کے انتظا م کے بل 2016 کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد طلحہ محمود نے کہا کہ یہ انتہائی اہم معاملہ ہے پی آئی اے ملک کا اہم قیمتی اثاثہ ہے حکومت اس ادارے کی نجکاری کا ادارہ رکھتی ہے اس معاملے کا پہلے بھی تفصیل سے جائزہ لیا گیا ہے اور معاملے متعلق معلومات طلب کی تھیں اس میں بے شمار مسائل نظر آرہے ہیں ملک کے قیمتی اثاثے اور لوگوں کے مستقبل کے متعلق جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہیں کیا جائے گابہت سی چیزوں کو واضح کرنے کی ضرورت ہے اور اسی حوالے سے اس قائمہ کمیٹی نے ادارے کے تمام اثاثوں کی تفصیلات اور تخمینے سے آگاہی حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تھا اراکین کمیٹی نے بھی بے شمار تحفظات کا اظہار کیا تھا ان تمام چیزوں کو واضح کرنے کی ضرورت ہے مگر بل کا جائزہ لینے کیلئے جو وقت فراہم کیا گیا ہے وہ نا کافی ہے 6 ورکنگ دنوں میں تمام چیزوں کا جائزہ نہیں لیا جاسکتا ہے سیکرٹری ایوی ایشن ڈویژن نے قائمہ کمیٹی کو پی آئی اے کے اثاثہ جات بارے تفصیل سے آگاہ کیا جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ادارے کے کچھ ہوٹلز او ر کمپنیاں بھی ہیں جن کا ذکر نہیں کیا گیا وہ بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہیں اور ان کمپنیوں کے سی ای اوز ،ہوٹلز کی آڈٹ رپورٹ اور پچھلے 5 سالوں کے دوران ان معاملات کی تفصلات بارے پہلے آگاہ کیا جائے نجکاری کمیشن بھی ان تمام معاملات کا تفصیل سے جائزہ لے اور سینیٹ کی اس قائمہ کمیٹی کو حقیقت پر مبنی حقائق سے آگاہ کرے قوم کے سامنے پی ٹی سی ایل کے معاملات واضح ہیں پی ٹی سی ایل کی 3 ہزار پراپرٹیاں ان کے نام کر دی گئیں ہیں اور 33 مزید ان کے نام کی جائیں گی ہم یہ تاریخ دوبارہ نہیں دوہرانے دیں گے اور ملک کے قیمتی اثاثے کو ضائع نہیں ہونے دیں گے وزیر مملکت نجکاری محمد زبیر نے کہا کہ پی آئی اے کی پراپرٹیوں کا تخمینہ اتنا جلد ی میں نہیں لگویا جا سکتا باہر کی کمپنی سے تخمینہ کے لئے انتظامت کئے جاتے ہیں نجکاری کمیشن ٹاپ کلاس پرفیشنلز سے تخمینہ لگواتے ہیں جس میں تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھا جاتاہے اور قانون کے مطابق تین سالوں میں ایک دفعہ اسسمنٹ کرائی جاتی ہے اور جہاں تک پی ٹی سی ایل کے 800ملین ڈالر کا مسئلہ ہے تو وہ اس وقت کی حکومت کی ذمہ داری تھی کہ وہ تمام رقم وصول کرتی۔سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ پچھلے اجلاس میں قائمہ کمیٹی نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا تھا تمام اسٹیک ہولڈرز کو بلا کر معاملات کا تفصیل سے جائز ہ لیا جائے گامگر وہ سب نظر نہیں آرہے ہیں انہوں نے کہا کہ یہ کارپویشن کو کمپنی لمٹیڈ میں تبدیل کرنے کا بل ہے اس بل کے حوالے سے مزید وقت درکار ہوگا جو معلومات فراہم کی گئیں ہیں وہ مکمل نہیں ہیں میں تجویز کرتا ہوں کہ اس بل کو مسترد کیا جائے پہلے تمام شکوک و شبہات و ابہام کو دور کیا جائے پورا ملک ا س کی نجکاری سے انکار کر چکا ہے قوم پریشان ہے نجکاری کے پہلے معاملات بارے بھی لوگوں سوالات اٹھ رہے ہیں اور حکومت پی آئی اے کی نجکاری کے حوالے صحیح معلومات فراہم کرنے کو تیا رنہیں سینیٹر سلیم ایچ مانڈوی والا نے کہا کہ ایسی کیا ایمرجنسی حکومت کو درپیش ہے کہ راتوں رات ملک کے اہم قیمتی اثاثوں کی نجکاری کے حوالے سے فیصلہ کروانا چاہتی ہے اور قومی اسمبلی سے بل پاس بھی کر چکی ہے اس بل پر سیر حاصل بحث کی جائے اور پھر فیصلہ کیا جائے گا۔ سینیٹر نوابزدہ سیف اللہ مگسی نے کہا کہ قانون کے مطابق کسی بھی معاملے کے متعلق 60 دن میں تفصیلی جائزے کے بعد رپورٹ پیش کی جاسکتی ہے یہ مسئلہ سینیٹ اجلاس میں پیش کیا جائے اور ووٹ کے ذریعے مزید وقت حاصل کیا جائے ۔اگر حکومت غیر قانونی طریقے سے آگے جانا چاہتی ہے تو یہ ایوان بالاکی ذمہ داری ہے کہ ان چیزوں کو چیک کرے سینیٹر کلثوم پروین نے کہا کہ ملکی مفاد کی خاطر کچھ معاملات پر تمام سیاسی جماعتیں متفق تھیں 18 ویں ترمیم بھی متفقہ رائے سے پاس کی گئی تھی نجکاری اور چیز ہے شراکت داری اور چیز ہے پہلے چیزوں کو واضح کیا جائے اورمزید وقت حاصل کیا جائے سینیٹر خوش بخت شجاعت نے کہا کہ پہلے اندیشے دور کیے جائیں پھر سیر حاصل گفتگو کے بعد فیصلہ کیا جائے سینیٹر میر محمد یوسف بادینی نے کہا کہ بل کے لئے مزیدوقت درکار ہوگاسینیٹر شاہی سید نے کہا کہ نجکاری کے پہلے کیسز پر سوالیہ نشانات ہیں تمام سیاسی جماعتیں ان اداروں کی نجکاری چاہتی تھیں جو خسارے میں جارہے تھے مگر ہمارے ملک میں اس کے برعکس ہوا ہے ۔پہلے طریقہ کار کو ٹھیک کیا جائے ہم اس گناہ میں شامل نہیں ہونگے نجکاری کے لئے پہلے پارلیمنٹ کی ایک جائزہ کمیٹی بنائی جائے جس میں حکومت ، اپوزیشن ، ارکان اسمبلی و سینیٹ شامل ہوں جس پر چیئرمین نجکاری کمیشن محمد زبیر نے کہا کہ پہلے ہمارے طریقہ کار کو تفصیل سے سنا جائے خامیوں کی نشاندہی کی جائے ہم پارلیمنٹرین کی رائے کا احترام کریں گے ۔سینیٹر سعید غنی نے کہا کہ قانون کو بائی پاس کر کے کام نہیں کیا جائے گاسینیٹر نوابزدہ سیف اللہ مگسی نے کہا کہ بورڈ میں چار افسران بھاری تنخواہوں پرڈیپو ٹیشن پر لائے گئے ہیں اور 2013 سے پی آئی اے کارگو تنزلی کا شکار ہے کیا ادارے کی نجکاری کرنیکی واقعی ضرورت ہے یا مو ثر حکمت عملی اور بہتر انتظامیہ کی بدولت اس کو منافع بخش ادارہ بنا یا جاسکتا ہے جس پر چیئرمین کمیٹی سینیٹر طلحہ محمو د نے کہا کہ تمام اراکین کو تحفظا ت حاصل ہیں بہت سی چیزیں ابہام پیدا کر رہی ہیں ان کا تفصیل سے بعد میں جائزہ لیا جائے اور سینیٹ کی یہ قائمہ کمیٹی اس بل کو متفقہ طور پر مسترد کرتی ہے یہ قائمہ کمیٹی یونینز، ایس ایس سی پی ، اس کی قانونی حیثیت اور نجکاری کمیشن سے تمام تفصیلات سے آگاہی حاصل کرنا چاہتی تھی اور ان تمام چیزوں کا 12 دنوں میں جائزہ لینا ممکن نہیں انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی و سینیٹ کی کمیٹیاں پی آئی اے کی نجکاری کے حوالے سے کام کر رہی ہیں ان کا موقف بھی جاننا ضروری ہے ۔سینیٹر طلحہ محمود نے کہا کہ ملک میں موثر قانون سازی کی گئی ہے مگر صحیح عمل درآمد نہیں کرایا گیا ۔ قائمہ کمیٹی کے آج کے اجلاس میں سینیٹرز شاہی سید،میر محمد یوسف بادینی،خوش بخت شجاعت،کامل علی آغا،کلثوم پروین،حاجی سیف اللہ خان بنگش،اور نوابزاہ سیف اللہ مگسی،سلیم مانڈوی والا اور سعید غنی کے علاوہ وزیر مملکت نجکاری محمد زبیر،سیکرٹری ایوی ایشن دویژن ،سیکرٹری نجکاری کے علاوہ دیگر اعلی حکام نے شرکت کی۔