اسلام آباد (نیوزڈیسک)پاکستان کے شمالی علاقہ جات گلگت بلتستان میں حکام کے مطابق حالیہ برسوں کے دوران شدید بارشوں، سیلاب اور پہاڑی تودے گرنے جیسی قدرتی آفات کی تعداد اور شدت میں اضافہ ہوا ہے جس کے باعث کئی خاندانوں کو اپنے آبائی علاقوں سے نقل مکانی کرنا پڑی ہے۔ضلع عذر کی وادی داماس میں رہنے والے 68 سالہ اسحاق خان نے بتایا کہ پانچ برس پہلے آنے والے سیلاب نے ان کے پورے گاو¿ں کو ملیا میٹ کر دیا۔انھوں نے نیا گھر تو بنا لیا ہے مگر اتنے پیسے نہیں کہ منوں پتھروں تلے دبے کھیت اور باغات کی زمین کو دوبارہ کاشت کے قابل بنا سکیں اب بھی موسم گرما میں سیلاب کا ڈر انہیں سونے نہیں دیتایہاں پر اب بھی خطرہ ہے سیلاب آنے کا۔ کہیں جانے کے قابل بھی نہیں میرے پاس پیسے بھی نہیں ہیں ¾زمین بھی نہیں ادھر وڈیرے لوگ تھے وہ سب کوئی اسلام آباد، کوئی گلگت کوئی کہیں کوئی کہیں ¾میں کدھر جاو¿ں۔انھوں نے بتایا کہ ان کے باغ سے ہر سال بیس من بادام کی پیداوار ہوتی تھی جبکہ اخروٹ اور انگور کے باغ اور کھیت بھی تھے جو سب سیلاب کے ساتھ آنے والے پہاڑی پتھروں تلے دب گئے اور وہ قلاش ہوگئے۔بات چیت کے دوران محمد اسحاق کا دایاں ہاتھ مسلسل ہل رہا تھا اور وہ بائیں ہاتھ سے اسے قابو کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ سیلاب کی تباہ کاری کے بعد ان پر فالج کا حملہ ہوا جس سے ان کا دایاں کاندھا اور ہاتھ متاثر ہوئے اور اب وہ محنت مزدوری بھی نہیں کرسکتے۔بیالیس سالہ معصوم شاہ نے بتایا کہ ان کا اپنا لکڑی کا کارخانہ تھا اور کھیت اور باغات بھی مگر ایک رات سیلاب سب کچھ بہالے گیا۔گلگت شہر میں واقع ایک کارخانے میں آرا مشین پر کام کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’وہاں پر میرا اپنا کارخانہ تھا تاہم یہاں پر اب مزدوری کرتا ہوں کسی کے پاس۔ وہاں پر ہمارا بڑا مکان تھا۔ میرے دو بھائی زمینداری کرتے تھے اور مال مویشی رکھتے تھے۔ پھر سیلاب آگیا اور ہم تینوں بھائیوں کو وہاں سے نکلنا پڑا۔انھوں نے بتایا کہ انھوں نے اپنی جمع پونجی سے گلگت شہر کی درکوت کالونی میں مکان خرید لیا مگر ان کے دونوں بھائیوں کی مالی حالت خستہ تھی اس لیے وہ کرائے کے مکانوں میں رہتے ہیں اور اب راج مزدوری کرتے ہیں۔وہاں گاو¿ں میں لسّی ،گھی ہوتا تھا وہاں مالی تنگی نہیں تھا لیکن یہاں شہر میں زندگی بڑی مشکل ہے ¾ بس گزارا کرتے ہیں۔حکام کے مطابق صرف وادی درکوت سے حالیہ برسوں میں سو سے زیادہ خاندانوں نے نقل مکانی کی ہے۔ گلگت بلتستان کی کئی اور وادیوں سے بھی قدرتی آفتوں کی وجہ سے لوگوں کو نقل مکانی کرنا پڑی ہے مگر اسکے اعدادوشمار موجود نہیں۔گلگت بلتستان دنیا کے چند بلند ترین مقامات میں سے ایک ہے جو ہمالیہ، ہندوکش اور قراقرم کے پہاڑی سلسلوں کی آغوش میں واقع ہے۔ یہاں ہزاروں گلیشئرز ہیں جو پاکستان کے لیے پانی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ماہرین کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں فطری توازن میں جو بگاڑ پیدا ہو رہا ہے اس سے شدید بارشیں اور سیلاب پہلے سے زیادہ اور شدت سے آرہے ہیں اور اس کا پہلا شکار یہاں کے لوگ بنتے ہیں۔عالمی ادارے ڈبلیو ڈبلیو ایف کے اہلکار بابر خان نے بی بی سی کو بتایا کہ کم و بیش ایک عشرے سے ان سیلابوں کی تعداد بہت حد تک بڑھ گئی برفباری کے موسم میں بڑی تبدیلی آئی ¾پہلے عام طور پر برفباری نومبر، دسمبر، جنوری میں ہوا کرتی تھی مگر اب وہ برف فروری اور مارچ کے مہینے میں ہوتی ہے اور درجہ حرارت میں تھوڑے سے اضافے سے یہ برف پگھلنے لگتی ہے اور اس سے بے موسمی سیلاب آتے ہیں جس سے تباہی ہوتی ہے۔گلگت بلتستان کے ماحولیاتی تحفظ کے سرکاری ادارے کے سربراہ شہزاد شگری نے بی بی سی کو بتایا کہ جو ہمارا گلگت بلتستان کا انوائرنمینٹل پروٹیکشن ایکٹ ہے جو اسمبلی میں پیش ہونے جارہا ہے اس میں موسمیاتی تبدیلیوں کو ایک الگ سبجیکٹ کے طور پر شامل کیا گیا انھوں نے کہا کہ مقامی حکومت موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے دو طرح سے نمٹنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ایک تو ڈزاسٹر مینجمنٹ ہے جو آفات کے بعد ہوگا اور دوسرا ان آفتوں کے خطرے کو کم کرنا ہے کہ یعنی ہم ان سے بچ کیسے سکتے ہیں۔ اسکے لیے ہم خطرے سے دوچار آبادیوں کا سروے بھی کررہے ہیں۔گلگت بلتستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کے لیے پانچ منصوبے تیار کیے گئے ہیں جن کی فنڈنگ کے لیے عالمی برادری سے رجوع کیا جائے گا۔