اسلام آباد(آن لائن)سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صدارتی ریفرنس نظر ثانی کیس کی سماعت کرنے والے بینچ کی تشکیل کے حوالے سے دائر درخواست کی سماعت کے موقع پر قرار دیا ہے کہ مشاورت کے بعد بینچ کی تشکیل سے متعلق اٹھاے گئے اعتراضات پر فیصلہ دیں گے۔
بینچ کی تشکیل کا آئینی اختیار چیف جسٹس کے پاس موجود ہے۔ درخواست گزار چیف جسٹس پاکستان پر الزام لگا کر اپنی حد سے باہر نہ جائیں،ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کیس کی سماعت میں چیف جسٹس پاکستان پر الزام لگایا جائے۔معاملہ کی سماعت جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں چھ رکنی بینچ نے کی۔ دوران سماعت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے موقف اپنایا کہ سپریم کورٹ رول 26 اے کے مطابق صرف وہی بینچ نظر ثانی درخواستیں سن سکتا ہے جس نے پہلے مرکزی کیس کی سماعت کی ہو۔سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے چھ رکنی بینچ تشکیل دے کر غلطی کی ہے۔چھ رکنی بینچ کیسے سات رکنی بینچ کے فیصلے پر نظر ثانی درخواست سن سکتا ہے۔چیف جسٹس پاکستان اس کیس میں فریق ہیں۔جسٹس عمر عطاء بندیال نے مسز قاضی فائز عیسیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ ہماری فیملی کا حصہ ہیں،آپ ادارے اور اسکے سربراہ کے بارے میں بات کرتے ہوئے محتاط رہیں،چیف جسٹس بینچ بنا سکتا ہے یہ ان کا آئینی
اختیار ہے،درخواست گزار چیف جسٹس پاکستان پر الزام لگا کر اپنی حد سے باہر نہ جائیں۔مسز فائز عیسیٰ نے اس موقع پر عدالت سے معافی طلب کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ میرا مقصد کسی معزز جج کی دل آزاری نہیں تھا، اگر کسی جج کی دل آزاری ہوئی ہے تو میں معزرت چاہتی ہوں۔
فریق نہ ہونے کے باوجود جسٹس عمر عطاء بندیال نے 81 مرتبہ میرا نام لیا،تین معزز ججز کو بینچ سے نکال کر میرے حقوق متاثر کیے گئے ہیں،سات رکنی بینچ کے فیصلے کو چھ رکنی بینچ کیسے کالعدم قرار دے سکتا ہے۔میرے مقدمے کی سماعت کے لیے دس رکنی بینچ تشکیل دیا جائے۔
چیف جسٹس بطور چیئرمین جوڈیشل کونسل ہماری قسمت کا فیصلہ کیسے کر سکتے ہیں، شہزاد اکبر اور فروغ نسیم نے غیر قانونی طریقہ اپنایا،اختلافی نوٹ دینے والے 3 ججز نے بھی مجھے سنے بغیر فیصلہ کیا،جاننا چاہتی ہوں مجھے اور میرے شوہر کو کیوں نشانہ بنایا گیا۔
پوری عدلیہ میں صرف میں نے اور میرے شوہر نے اثاثے ظاہر کیے،میرے شوہر کو ٹارگٹ کرنے کیلئے انکم ٹیکس قانون کا استعمال کیا گیا، انصاف یہ ہو گا کہ وزیراعظم، وزیر قانون سمیت تمام فریقین اپنے اور اہل خانہ کے ٹیکس گوشوارے جمع کرائیں،ٹیکس گوشوارے نہ دینے سے ظاہر
ہوگا کہ فریقین منافقت کر رہے ہیں۔جسٹس عمر عطا بندیال نے اس موقع پر ریمارکس دئیے کہ میں مانتا ہوں چھ رکنی بینچ سات رکنی بینچ کے فیصلے کو کالعدم قرار نہیں دے سکتا،اٹھائے گئے نکات نوٹ کر لیے ہیں، درخواست گزارحقائق کو نظر انداز نہ کریں،ابھی ہم نظر ثانی اپیل نہیں
سن رہے،درخواست گزار نے جس انداز میں سوالات اٹھائے یہ طریقہ درست نہیں ہے،عدالت کا وقار عوام میں برقرار رکھنا بار کاکام ہے۔جج خود عوام میں نہیں جاسکتے۔احتساب کے بغیر عدلیہ کی آزادی ممکن نہیں۔ہم نے اپنے فیصلے میں توازن رکھا۔ایک طرف جج پر لگائے اعتراضات ختم کرکے
عدلیہ کی آزادی کو برقرار رکھا۔دوسری طرف احتساب کے عمل کو تحفظ دیا,ہم چاہتے ہیں کیس کو جلد ختم کریں،پرسوں تک کیس کی تیاری کر لیں,فریقین اپنی تیاری رکھیں،یہ اس عدالت کے معزز جج کا معاملہ ہے اس لیے ہم بہت محتاط ہیں،یہ بار کی ذمہ داری ہے کہ قانون پر عمل ہو رہا ہو تو
عوام کو بتائے۔یہ عدالت کے لیے بھی ایک خصوصی کیس ہے،عدالت کے معزز جج اس وقت ملزم نہیں ہیں ان پر کوئی الزام نہیں۔عدلیہ کی آزادی اسکے احتساب سے جڑی ہے۔عدالت نے آئین پر عمل کر کے انصاف کی سربلندی کے لیے کام کرنا ہے۔عدالت نے انصاف کے اصولوں کے تحت فیصلہ دیا۔
اس کیس میں بہت ساری ایسی باتیں ہوئیں جن سے تکلیف ہوئی مگر عدالت نے فیصلہ صرف اور صرف آئین و قانون کے مطابق دینا ہوتا ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے موقف اپنایا کہ ذوالفقار علی بھٹو نظر ثانی کیس ان سات ججوں نے سنا جنہوں نے مرکزی کیس سنا۔
بینچ کی تشکیل کے سپریم کورٹ کے رولز آئین کے آرٹیکل 189 کے ماتحت ہیں۔میرا پوائنٹ یہ ہے کہ آئین میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ سپریم کورٹ اقلیتی یا اکثریتی فیصلے پر نظر ثانی کرے گی۔عدالت کا فیصلہ وہ مختصر فیصلہ ہے جس پر تمام ججز کے دستخط ہیں۔سندھ ہائی کورٹ بار کے
وکیل رشید رضوی نے اس موقع پر موقف اپنایا کہ اگر نو جج نظرثانی کیس سنے تو اس سے نقصان کیا ہے،یہ تاثر نہیں جانا چاہیے کہ انصاف نہیں ہوا۔نظرثانی درخواست فیصلہ کرنے والا بنچ ٹوٹ ہی سکتا ہے،قانون اور عدالتی فیصلوں کیخلاف کچھ ہوا تو عدلیہ کا امیج خراب ہوگا،انصاف کا
ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ انصاف ہوتا بھی نظر آئے۔بار اور عوام سوچ رہی ہے کہ نظرثانی درخواست میں اختلافی ججز کو کیوں نہیں بٹھایا گیا۔عدالت کو اس تاثر کو دور کرنا چاہیے۔جس پر جسٹس منیر اختر نے کہا کہ ایک سینئر وکیل کے منہ سے عدالت پر عدم اعتماد قابل افسوس ہے،فیصلوں
کی ڈگریوں پر عمل ہوتا ہے فیصلوں پر نہیں جس پر ایڈووکیٹ رشید رضوی نے کہا کہ میں اپنے دلائل پر پوری طرح قائم ہوں۔ہم نے ہمیشہ عدلیہ کی آزادی اور آئین کی بالادستی کی جدوجہد کی۔سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر لطیف آفریدی نے کہ وہ کرونا کی وجہ سے تیاری نہیں کر سکے دلائل کیلئے 2 ہفتوں کی مہلت دی جائے۔عدالت عظمیٰ نے استدعا مسترد کرتے ہوئے لطیف آفریدکو تیاری کے لئے ایک دن کی مہلت دیدی ،عدالت نے مزید سماعت جمعرات10 دسمبر تک کے لئے ملتوی کر دی ۔