پیر‬‮ ، 04 اگست‬‮ 2025 

وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے مالی سال 23-2022 کیلئے 95کھرب حجم کا بجٹ پیش کردیا ،حکومت کا 40ہزار ماہانہ سے کم آمدن والوں کیلئے اہم اعلان

datetime 10  جون‬‮  2022
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (این این آئی)وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے مالی سال 23-2022 کیلئے 95کھرب حجم کا بجٹ پیش کردیا جس کے مطابق کل اخراجات کا تخمینہ 9ہزار 502 ارب روپے ہے،قرضوں کی ادائیگی کی مد میں 3ہزار 144ارب روپے ،پبلک سیکٹر ڈیویلپمنٹ پروگرام کیلئے 800ارب روپے ،ملکی دفاع کیلئے ایک ہزار 523ارب روپے ،سول انتظامیہ کے اخراجات کیلئے 550ارب روپے

،پنشن کی مد میں 530ارب روپے ،سبسڈیز کیلئے 699ارب روپے ،گرانٹس کی مد میں ایک ہزار 242 ارب روپے ،بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کیلئے 364ارب روپے ،ماحولیاتی تبدیلی کیلئے 10ارب روپے ،بجلی کے شعبے کی پیداوار اور ترسیل کی مد میں 73 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں ،ایک کروڑ طلبہ کو بے نظیر اسکالرشپ دی جائے گی،تعلیم کیلئے 109ارب روپے خرچ ہونگے ،تنخواہ دار طبقے کیلئے ٹیکس چھوٹ کی حد بارہ لاکھ روپے سالانہ کر دی گئی ہے ،40ہزار ماہانہ سے کم آمدن والوں کو ماہانہ 2ہزار روپے دئیے جائیں گے،سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15فیصد اضافہ ،1600سی سی اور اس سے زائد کی گاڑیوں پر ٹیکس میں اضافہ کر دیا گیا،سولر پینل کی درآمدات پر صفر سیلز ٹیکس عائد ہو گا،200 یونٹ سے کم بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو سولر پینل کی خریداری پر بینکوں سے آسان اقساط پر قرضے دلائے جائیں گے،ٹریکٹرز، زرعی آلات، گندم، مکئی، کینولا، سورج مکھی اور چاول سمیت مختلف اجناس کے بیجوں کی سپلائی پر ٹیکس واپس لینے ،خیراتی ہسپتال کو درآمد/عطیات اور 50 یا اس سے زائد بستروں والے خیراتی/غیر منافع بخش ہسپتالوں کو بجلی سمیت مقامی سپلائیز پر مکمل چھوٹ دینے کی تجویز ہے،۔زرعی مشینری پر کسٹم ڈیوٹی ختم کردی گئی ،سگریٹ پر ٹیکس 150 ارب سے 200 ارب روپے اکٹھا کرنے

،آئندہ مالی سال برآمدات کا تخمینہ 35 ارب ڈالر، برآمدات کا تخمینہ 31 ارب ڈالر کرنے ، مہنگائی کی شرح 11.5 فیصد کرنے کا ہدف مقرر،کریڈٹ اور ڈیبٹ کارڈز کی غیر ملکی ادائیگیوں پر ایڈوانس ٹیکس ،نان فائلرز کیلئے ٹیکس کی شرح 100 سے 200 فیصد کرنے کی تجویز دے دی گئی ،

یوتھ روزگار سکیم کے تحت 20 لاکھ سے زیادہ مواقع، آسان شرائط پر قرضوں فراہم کئے جائینگے ،ایکسپورٹرز کے تمام واجبات جو سٹیٹ بینک کے مطابق تقریباً 40 ارب کے ہیں،رواں ماہ ادا کئے جائیں گے ،کابینہ اور سرکاری اہلکاروں کی پیٹرول کی حد کو 40 فیصد کم کیا جائیگا،

لازمی دوروں کے علاوہ دوروں پر پابندی ہوگی،فلم کو صنعت کا درجہ دے دیا گیا ، ایک ارب کی سالانہ لاگت سے ‘بائڈنگ فلم فنانس فنڈ قائم ، فنکاروں کے لئے میدیکل انشورنس پالیسی شروع کی جائے گی،فلم، ڈراموں کیلئے مشینری، آلات اور سازو سامان کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی سے 5 سال کا استثنیٰ

،آبی وسائل کیلئے بڑے ڈیموں، دیامر بھاشا، مہمند، داوس، نئی گاج ڈیم اور کمانڈ ایریا پروجیکٹس کے کے لیے بجٹ میں سو ارب روپے ،انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں تربیت دینے، لیپ ٹاپ فراہم کرنے، آئی ٹی برآمدات کو فروغ دینے کے لئے 17 ارب روپے رکھے گئے،فائلرز کیلئے پراپرٹی کی خرید و فروخت پر ایڈوانس ٹیکس کی شرح موجودہ ایک فیصد شرح سے بڑھا کر 2 فیصد

،نان فائلرز کی حوصلہ شکنی کیلئے پراپرٹی کے خریداروں کے لیے ایڈوانس ٹیکس کی شرح بڑھا کر 5 فیصد کرنے اور تمام افراد بشمول کمپنیز اور اے او پیز جن کی سالانہ آمدن 300 ملین یا اس سے زائد ہو ان پر 2 فیصد ٹیکس ادا کرنے کی تجویز دی گئی

،30 سے زائد ایکٹو فارما سیوٹیکل انگیریڈینٹس کو کسٹم ڈیوٹی سے مکمل استثنیٰ دے دیا گیاجبکہ وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ حکومت کو گزشتہ پونے چار سال کی بری کارکردگی کی وجہ سے پیدا ہونے والی ابتر معاشی صورتحال بہتر بنانے کا مشکل چیلنج درپیش ہے،

گزشتہ حکومت کی ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے معاشی ترقی رک گئی، سماجی ڈھانچہ متاثر ہوا اور اس دوران معاشی بدانتظامی عروج پر رہی جس کی وجہ سے عام آدمی بری طرح متاثر ہوا اور روپے کی قدر میں بے تحاشا کمی دیکھنے میں آئی اور ہر چیز کی قیمت بڑھ گئی

،شتہ پونے 4 سال کے دوران ایک ناتجربہ کار ٹیم نے ملک کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا، ہر سال ایک نیا آدمی بجٹ پیش کرتا رہا اور ہر سال حکومت کی معاشی پالیسی بدل جاتی تھی جس سے سرمایہ کاروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی،اس وقت ہماری اولین ترجیح معاشی استحکام ہے،برآمدات وہیں کھڑی رہتی ہیں

۔وزیر خزانہ نے کہا کہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ہمیں نئی سوچ کو اپنانا ہوگا اور ایک قوم کے طور پر اس مسئلے کا حل نکالنا ہوگا، ہمیں معیشت کو چلانے کیلئے کم آمدنی والے اور متوسط طبقے کو مراعات دینا ہوگی جس سے مقامی پیداوار بڑھے گی اور زراعت کو بھی ترقی ملے گی۔

جمعہ کو قومی اسمبلی کااجلاس اسپیکر راجا پرویز اشرف کی زیر صدارت ہوا جس میں وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے بجٹ پیش کیا ۔وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ اس حکومت میں وفاق کی تمام اکائیوں کی نمائندگی ہے

لہٰذا ملکی معیشت کے بارے میں کیے جانے والے فیصلوں کو قوم کی وسیع تر حمایت حاصل ہے۔انہوںنے کہاکہ حکومت کو گزشتہ پونے چار سال کی بری کارکردگی کی وجہ سے پیدا ہونے والی ابتر معاشی صورتحال بہتر بنانے کا مشکل چیلنج درپیش ہے، گزشتہ حکومت کی ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے معاشی ترقی رک گئی، سماجی ڈھانچہ متاثر ہوا اور اس دوران معاشی بدانتظامی عروج پر رہی

جس کی وجہ سے عام آدمی بری طرح متاثر ہوا اور روپے کی قدر میں بے تحاشا کمی دیکھنے میں آئی اور ہر چیز کی قیمت بڑھ گئی۔وزیر خزانہ نے پی ٹی آئی کی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ پونے 4 سال کے دوران ایک ناتجربہ کار ٹیم نے ملک کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا،

ہر سال ایک نیا آدمی بجٹ پیش کرتا رہا اور ہر سال حکومت کی معاشی پالیسی بدل جاتی تھی جس سے سرمایہ کاروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی، انہوں نے عالمی برادری اور عالمی مالیاتی اداروں کے سامنے بھی بار بار مؤقف بدلنے کی عادت اپنائی، اس لیے آئی ایم ایف کا جو پروگرام اس سال ختم ہونا تھا،

وہ فروری میں معطل ہوچکا تھا اور وہ بنیادی اصلاحات جو 2019 میں ہونی تھیں ابھی تک نہیں ہوئیں۔وزیر خزانہ نے نے کہاکہ معیشت کے ڈھانچہ جاتی بگاڑ کو درست کرنے کے لیے بنیادی اصلاحات کی ضرورت ہوتی ہے، جس کا ایک فوری منفی رد عمل بھی دیکھنے میں آتا ہے

مگر معیشت مضبوط بنیادوں پر استوار ہوجاتی ہے، گزشتہ حکومت ایسے اقدامات سے کتراتی رہی، اس لیے وہ تمام اصلاحات مؤخر ہوتی رہیں جن کی وجہ سے آج معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہوسکی اور خوشحالی ہم نے دور ہوگئی۔مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ موجودہ حکومت کے پاس بہت کم وقت ہے، ہم بڑی آسانی سے ان تبدیلیوں کو آئندہ حکومت پر ڈال سکتے تھے لیکن اس میں ملک کا نقصان تھا،

اس لیے ہم نے فیصلہ کیا کہ وہ تمام تبدیلیاں کی جائیں گی جن سے معیشت اور ملک کو فائدہ ہوگا۔وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم یہ جانتے ہوئے حکومت میں آئے تھے کہ ملک کی معشیت کی حالت خراب ہے، ہمارے پاس دو آپشن تھے، ایک تو یہ کہ ملک کو اسی حالت میں چھوڑتے اور نئے انتخابات کا اعلان کردیتے مگر اس طرح معشیت کا بیڑا غرق ہوجاتا اور ملک کو دوبارہ پٹڑی پر چڑھانا مزید مشکل ہوجاتا،

اس لیے ہم نے دوسرا راستہ اپنایا اور مشکل فیصلے کرنا شروع کیے، یہ ہی ترقی کا راستہ ہے، ہم نے پہلے بھی یہ کیا ہے، ہم کرسکتے ہیں اور ہم کرکے دکھائیں گے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ قومی مفاد کو اپنے سیاسی مفاد پر ترجیح دی ہے، اس وقت بھی ہماری اولین ترجیح معاشی استحکام ہے، ہماری معیشت کا ایک بنیادی مسئلہ یہ رہا ہے کہ اکثر معاشی ترقی کی شرح 3 اور 4 فیصد کے درمیان رہتی ہے

جو ہماری آبادی کی شرح سے مطابقت نہیں رکھتی، اس کے برعکس جب معاشی ترقی کی شرح 5 یا 6 فیصد سے اوپر جاتی ہے تو کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ قابو سے باہر ہوجاتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم معیشت کو چلانے کے لیے امیر طبقے کو مراعات دیتے ہیں جس سے درآمدات بڑھ جاتی ہیں جبکہ برآمدات وہیں کھڑی رہتی ہیں۔وزیر خزانہ نے کہا کہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ہمیں نئی سوچ کو اپنانا ہوگا

اور ایک قوم کے طور پر اس مسئلے کا حل نکالنا ہوگا، ہمیں معیشت کو چلانے کیلئے کم آمدنی والے اور متوسط طبقے کو مراعات دینا ہوگی جس سے مقامی پیداوار بڑھے گی اور زراعت کو بھی ترقی ملے گی۔مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ ہمیں غریب کے معاشی حالات کو سنوارنا ہوگا،

غریب طبقے کو سہولتیں دینا ہوں گی تاکہ اس کی آمدن بڑھے، جب غریب کی آمدن بڑھتی ہے تو وہ ایسی اشیا خریدتا ہے جو ملک کے اندر تیار ہوتی ہیں، ایسی اشیائے صرف پر خرچ کی گئی رقم سے درآمدات نہیں بڑھتیں لیکن ملک کے اندر معاشی ترقی کا عمل شروع ہوجاتا ہے، ایسا کرنے سے ہم مستقل بنیادوں پر جامع ترقی کرسکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمیں معاشی ترقی کی بنیاد رکھنی ہوگی،

ایسی مضبوط بنیاد جس پر مستحکم معاشی ترقی کی شاندار عمارت تعمیر ہوسکے اور جو اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ قائم و دائم رہے، ہمیں برآمدات بڑھانے، زراعت، آئی ٹی سیکٹر اور صنعتی برآمدات بڑھانا ہوں گی۔انہوںنے کہاکہ ہمیں زرعی شعبے کی پیداوار میں اضافہ کرنا ہوگا اور اپنی برآمدات کی مسابقت کو بڑھانا ہوگا تاکہ وہ عالمی منڈی دیگر ممالک کی مصنوعات کا مقابلہ کرسکیں،

ہمیں کاروبار کرنے کے مواقع کو آسان اور بہتر بنانا ہوگا تاکہ مقامی اور بیرونی سرمایہ کار زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کریں۔وزیر خزانہ نے کہا کہ ہمیں مشینری اور خام مال کی درآمد کے بعد اس کی ویلیو میں اضافہ کرکے برآمد کرنا ہوگا، اس طرح جتنی درآمدات بڑھیں گی

اس سے کہیں زیادہ بر آمدات میں بھی اضافہ ہوگا۔مفتاح اسمٰعیل نے کہاکہ ہمیں تباہ حال معیشت کو درست راہ پر گامزن کرنے کا مشکل چیلنج درپش ہے، گزشتہ پونے 4 سال کے دوران معاشی عدم استحکام جاری تھا، تاریخی مہنگائی، غیر ملکی زر مبادلہ کی مشکلات،

زیادہ لاگت پر بے دریغ قرضوں کا حصول، لوڈ شیڈنگ اور اوپر سے مسائل کا حل نکالنے میں ناکام سابقہ حکومت نے عوام کی زندگیوں کو مشکلات سے دوچار اور شکستہ حال بنادیا۔وزیر خزانہ نے کہا کہ گزشتہ پونے 4 سال کی بد انتظامی کی وجہ سے پاکستان مہنگائی کے حساب سے دنیا کے بڑے ملکوں میں نمبر 3 پر ہے، ساڑھے سات کروڑ لوگ غربت کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں،

ان میں دو کروڑ کا اضافہ گزشتہ پونے 4 سال میں ہوا جب کہ اسی دوران ساٹھ لاکھ لوگ بے روزگار ہوئے، اپنی پونے 4 سال کی مدت میں سابقہ حکومت نے 20ہزار ارب روپے قرض لیا جو لیاقت علی خان اور خواجہ ناظم الدین سے لے کر ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، میاں محمد نواز،

شاہد خاقان عباسی اور راجا پرویز اشرف سمیت تمام وزرائے اعظم کی حکومتوں کے 71 سال میں لیے گئے قرضوں کے 80 فیصد کے برابر ہے۔انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے ا?مدن سے زیادہ خرچ کیا اور پاکستان کی تاریخ کے 4 بلند ترین خسارے کے بجٹ پیش کیے، ان کا اوسط بجٹ خسارہ 8عشاریہ 6 فیصد کے قریب رہا، اس دوران سالانہ تقریبا 5 ہزار ارب روپے کا قرض بڑھایا گیا

اور رواں مالی سال میں پانچ ہزار 100ارب روپے کا خسارہ متوقع ہے۔انہوںنے کہاکہ اسی طرح بجلی کا گردشی قرضہ ایک ہزار 62ارب روپے سے بڑھ کر جو ہم مئی 2018 میں چھوڑ کر گئے تھے، اب ڈھائی ہزار ارب روپے کا ہوگیا ہے اور ملکی تاریخ میں پہلی بار گیس کے شعبے میں گردشی قرضہ دیکھنے میں ا?یا ہے جو مارچ 22-2021 میں ایک ہزار 400 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ نواز شریف کے دور حکومت میں مہنگائی کم سے کم کی گئی، مہنگائی کی شرح تقریبا 5 فیصد کے قریب تھی جبکہ افراط زر کی کم سے کم شرح 3عشاریہ 9 فیصد ریکارڈ کی گئی، گزشتہ پونے 4 سال کی بد انتظامی کی وجہ سے پاکستان ایک مستقل مہنگائی کی لہر میں ہے کیونکہ گزشتہ وزیراعظم کہتے تھے کہ میں پیاز اور ٹماٹر کے ریٹ دیکھنے نہیں آیا بلکہ ملک کو عظیم بنانے آیا ہوں،

مجھے نہیں معلوم کہ غریب آدمی کی مہنگائی کی چکی میں پیس کر کوئی ملک کیسے عظیم بن سکتا ہے۔مفتاح اسمٰعیل نے کہاکہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ عمران خان کی حکومت آتے ہی چینی اور آٹے کی قیمتیں کیوں بڑھ گئیں، 2013 میں چینی کی قیمت 55 روپے فی کلو تھی اور 2018 میں جب ہم گئے

تو چینی کی قیمت 53 روپے تھی مگر پھر 2018 کے بعد چینی کی قیمت کو پر لگ گئے اور اس کی قیمت 140 روپے سے تجاوز کر گئی۔وزیر خزانہ نے کہاکہ پھر وزیراعظم شہباز شریف آئے جو چینی کی قیمت 70 روپے فی کلو پر لے آئے، اسی طرح ہم 2018 میں آٹے کی قیمت 35 روپے فی کلو چھوڑ کر گئے

جو نئے پاکستان میں بڑھ کر 80 روپے فی کلو تک پہنچ گئی، پھر شہباز شریف نے یوٹیلٹی اسٹورز اور بہت سی دکانوں پر آٹا 40 روپے فی کلو فراہم کرنا شروع کیا۔انہوں نے کہا کہ جب 2018 میں ہماری حکومت گئی تو پاکستان گندم اور چینی برآمد کر رہا تھا مگر اب ہم دونوں چیزیں درآمد کر رہے ہیں

جس کی وجہ سابقہ حکومت کے غلط فیصلے ہیں۔انہوں نے کہا ہمارے ایل این جی کے معاہدوں پر جھوٹے الزامات لگائے گئے جس کی وجہ سے کئی رہنماؤں کو جیل کاٹنا پڑی، سابقہ حکومت نے کورونا کے دوران سستے ترین نرخوں پر معاہدے کرنے کے بجائے مہنگے داموں پر اسپاٹ خریداری کی،

اس کی وجہ سے ہمیں مہنگی ایل این جی خریدنا پڑھ رہی ہے۔مفتاح اسمٰعیل نے کہاکہ جب عمران خان کو فروری کے آخر میں لگا کہ ہماری حکومت جارہی ہے تو انہوں نے پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں کم کیں جب کہ پاکستان کا خزانہ قرضے پر چل رہا تھا، اس فیصلے سے پاکستان کی معیشت بحران میں پھنس گئی جس کو نکالنے کی کوشش جاری ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے پیش نظر غریب طبقے کو تحفظ دینے کا فیصلہ کیا، 40 ہزار روپے ماہانہ کم آمدنی والے خاندانوں کو 2 ہزار روپے ماہانہ دینے کا فیصلہ کیا گیا۔وزیرخزانہ نے کہا کہ 2013 سے 2018 کے درمیان پاکستانی کرنسی میں استحکام نظر آیا مگر پھر معاشی بد انتظامی کی بنا پر 2018 سے 2022 کے درمیان روپے کی قدر میں کمی واقع ہوئی،

روپے کے مقابلے میں ڈالر 115 روپے سے 189 تک پہنچ گیا اور آفر شاکس کی وجہ سے 200 کی حد بھی پار کرگیا، ہم نے کرنسی کو مستحکم کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔وزیر خزانہ نے کہاکہ وزیر اعظم چاہتے ہیں کہ عوام کو زیادہ سے زیادہ سے ریلیف دیا جائے، اس مقصد کے لیے امداد اور سبسڈی کے اقدامات کیے ہیں، اس مقصد کے لیے امیر لوگوں پر ٹیکس لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے

جب کہ زرعی پیداوار میں اضافہ کریں گے، صنعتوں کو ترقی دیں گے، برآمدات میں اضافہ کریں گے جس سے زر مبادلہ حاصل ہوگا۔وزیر خزانہ نے کہا کہ نئے محصولات کے ساتھ ساتھ حاصل ہونے والے محصولات کے انتظام و انصرام کو بہتر بنایا جائے گا، کفایت شعاری حکومت کی ترجیح ہے،

حکومتی اخراجات میں کمی اس بجٹ کا حصہ ہے، گاڑیوں، فرنیچر پر پابندی ہوگی، کابینہ اور سرکاری اہلکاروں کی پیٹرول کی حد کو 40 فیصد کم کیا جائیگا، لازمی دوروں کے علاوہ دوروں پر پابندی ہوگی۔انہوں نے کہا کہ بجٹ میں پینشن کی مد میں اگلے مالی سال میں 530 ارب روپے کا تخمینہ ہے،

ملک کی معیشت کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کے لیے نظام وضع کیا ہے جب کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے بغیر معاشی ترقی حاصل کرنا چیلنج ہے، اگلے سال توازن کو خراب کیے بغیر کم از کم 5 فیصد گروتھ حاصل کی جائے گی، اس طرح جی ڈٰی پی کو 67 کھرب روپے سے بڑھا کر اگلے مالی سال کے دوران 78 عشاریہ 3 کھرب روپے تک پہنچایا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت افراط زر 11.7 فیصد ہے جو کہ گزشتہ دس برسوں کے مقابلے میں سب سے بلند سطح پر ہے، فسکل پالیسی اور مالیاتی پالیسی کو بہتر بناتے ہوئے مہنگائی کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اگلے مالی سال میں افراط زر میں کمی کرکے گیارہ عشاریہ پانچ فیصد پر لایا جائیگا۔

انہوںنے کہاکہ ایمرجنگ مارکیٹ ممالک میں ٹیکس کی شرح جی ڈی پی کا تقریبا 16 فیصد ہے مگر پاکستان میں یہ شرح 8 عشاریہ 6 فیصد ہے، اگلے مالی سال کے دوران یہ شرح 9عشاریہ 2 فیصد تک لے جانے کی تجویز ہے، 2017،18 میں یہ 11 عشاریہ ایک فیصد پر چھوڑ کر گئے تھے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ اس سال جی ڈی پی کا مجموعی خسارہ 8 عشاریہ 6 فیصد ہے، اس میں بتدریج کمی کی جائے گی، اگلے سال میں کمی لا کر 4 عشاریہ 9فیصد تک کیا جائیگا، اسی طرح مجموعی پرائمری بیلنس جو جی ڈی پی کا منفی 2 عشاریہ 4 فیصد ہے اس میں بہتری لا کر اگلے مالی سال میں اس کو مثبت صفر عشاریہ انیس فیصد پر لایا جائے گا۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت برآمدات میں اضافے کے لیے اقدامات کر رہی ہے، درآمدات اس وقت 76 ارب ڈالر کی متوقع ہیں، اگلے سال ان میں کمی 70 ارب ڈالر کی سطح پر لائی جائیں گی، برآمدات اس وقت 31 عشاریہ 3 ارب ڈالر ہیں، اگلے مالی سال ان کو 35 ارب ڈالر تک بڑھانے کے اقدامات کیے جائیں گے،

کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس کو جی ڈٰی پی کے منفی 4 عشاریہ ایک فیصد سے گھٹا کر الگے مالی سال میں جی ڈی پی کے منفی 2۔2 فیصد پر لایا جائیگا۔وزیر خزانہ نے کہا کہ رواں سال ترسیلات زر 31 عشاریہ ایک ارب ڈالر ریکارڈ ہوں گی۔ انہوںنے کہاکہ اگلے مالی سال میں ترسیلات زر 33 عشاریہ 2فیصد ارب ڈالر تک بڑھنے کی توقع ہے۔انہوں نے کہا کہ اس سال سود کی ادائیگی میں کل 3، 144 ارب روپے ہوں گے

جس میں مقامی سود کی ادائیگی 2,770 ارب روپے بیرونی سود کی ادائیگی 373 ارب روپے ہونے کا تخمینہ ہے جب کہ اگلے سال اس مد میں کل ادائیگی 3 ہزار 950 ارب روپے ہونے کا تخمینہ ہے جس میں سے 3ہزار 439 ارب اندرونی اور 511 ارب روپے غیر ملکی قرضوں پر خرچ ہوں گے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ عوامی قرض جو کہ 18-2017 میں 25ہزار ارب روپے تھا، مارچ 2022 میں 44 ہزار 365 ارب روپے تک پہنچ گیا جو جی ڈی پی کا 72 عشاریہ 5فیصد ہے، ہم نے مالی سال کے آخری دو ماہ میں اخراجات میں کمی کے ذریعے قرض میں اضافے کی رفتار کو کم کیا ہے، قانون کے مطابق حکومت کے قرض لینے کی حد جی ڈی پی کا 60 فیصد مقرر کی گئی ہے۔

انہوںنے کہاکہ رواں مالی سال ایف بی آر ریونیو 6 ہزار ارب، صوبوں کا حصہ 3ہزار 512 ارب جبکہ وفاق کی خالص آمدنی 3 ہزار 803 ارب روپے رہی۔وفاقی حکومت کی نان ٹیکس آمدنی ایک ہزار 315 ارب جبکہ کْل اخراجات 9 ہزار 118 ارب ہوں گے،پبلک سروس ڈیولپمنٹ پرگرام پر اخراجات 5 سو 50 ارب ہوں گے،ڈیٹ سروسنگ کی مد میں 3 ہزار 144 ارب خرچ ہونگے،

دفاع پر 1 ہزار 450 ارب اخراجات آئیں گے،وفاقی حکومت کے اخراجات 5 سو 30 ارب ہوں گے،پنشن پر 5 سو 25 ارب کے اخراجات ہوں گے،سبسڈیز کی مد میں 1 ہزار 515 ارب جبکہ گرانٹ کی مد میں 1 ہزار 90 ارب خرچ ہوئے۔بجٹ 2022-23 کے اہداف کے مطابق ایف بی آر کا تخمینہ 7 ہزار 4 ارب لگایا گیا ہے،

صوبوں کا حصہ 4 ہزار 100 ارب ہو گا،وفاق کی خالص آمدنی 4 ہزار 904 ارب روپے ہوگی جس میں 2 ہزار ارب کی نان ٹیکس آمدنی بھی شامل ہے،وفاقی بجٹ کے کْل حجم کا تخمینہ 9 ہزار 502 ارب روپے ہے،ڈیٹ سروسنگ پر 3 ہزار 950 ارب کے اخراجات ہوں گے،پبلک سروس ڈیولپمنٹ پروگرام کے لیے 8 سو ارب کی رقم مختص کی گئی ہے،دفاع کیلئے 1 ہزار 523 روپے مختص کئے گیے ہیں،

سول انتظامیہ کے اخرجات کے لیے 5 سو 50 ارب رکھے گئے ہیں،پنشن کے لیے 5 سو 30 ارب مختص کئے گئے ہیں،ٹارگیٹد سبسڈیز کے لئے 6 سو 99 ارب روپے مختص،گرانٹ کے لئے ایک ہزار 242 ارب روپے رکھے گئے ہیں جس میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام، بیت المال اور دیگر محکموں کی گرانٹس شامل ہیں۔انہوںنے بتایاکہ

بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ( بی آئی ایس پی) کیلئے 23-2022 میں بڑھا کر 364 ارب روپے مختص، جو 22-2021 میں 2 سو 50 ارب روپے تھی،بی اذئی ایس پی کے تحت 90 لاکھ خاندانوں کو بے نظیر کیش ٹرانسفر کے تحت 2 سو 66 ارب مختص، بے نظیر تعلیمی وظائف پروگرام ایک کروڑ بچوں تک بڑھانے کے لیے 35 ارب روپے رکھے گئے ہیں، 10 ہزار طلبہ کو

بے نظیر انڈر گریجویٹ اسکالرشپ کے لیے 9 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، یوٹیلیٹی اسٹور کارپوریشن پر سبسڈی کے لیے 12 ارب روپے مختص جبکہ رمضان پیکیج کے لیے 5 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔بجٹ میں صنعت و تجارت کی توانائی کے لیے 570 ارب روپے رکھے گئے ہیں،پیٹرولیم کے شعبے کے بقایا جات کی ادائیگی کے لئے 71 ارب روپے مہیا کئے ہیں۔

ہائر ایجوکیشن کیشن ( ایچ ای سی ) کے لئے 65 ارب روپے کی رقم مختص کی ہے، ایچ ای سی کے ترقیاتی اسکمیوں کے لئے 44 ارب روپے علیحدہ رکھے گئے ہیں۔۔ایچ ای سی کے بجٹ میں بلوچستان اور ضم شدہ اضلاع کے 5 ہزار وظائف شامل ہیں، طلبہ کو ایک لاکھ لیپ ٹاپ آسان اقساط پر فراہم کریں گے،

فصلوں اور مویشیوں کی پیداوار بڑھانے کے لئے 21 ارب روپے مختص کئے ہیں۔یوتھ ایمپلائمنٹ پالیسی’ کے تحت 20 لاکھ نوجوانوں کو روزگار کے مواقعوں تک رسائی یقینی بنائی جائے گی، کاروبار کے فروغ کے لئے نوجوانوں کو 5 لاکھ روپے تک بلاسود قرضے دیے جائیں گے، کاروبار کے فروغ کے لئے نوجوانوں کو ڈھائی کروڑ تک آسان شرائط پر قرضے دیے جانے کی اسکیم کا اجرا کریں گے،

قرضہ اسکیم میں 25 فیصد خواتین کا کوٹہ مختص کیا گیا جبکہ خواتین کو ہائی ٹیک اور دیگر اسکلز کے ساتھ یوتھ ڈیولپمنٹ سینٹرز قائم کیے جائیں گے،250 منی اسپورٹس اسٹیڈیم بنائے جائیں گے۔وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ جناب اسپیکر صنعت کسی بھی ملک کے لیے نہایت ضروری ہے

اور لاکھوں لوگوں کے روزگار کا ذریعہ بنتی ہے، ایشیائی ترقیاتی بینک کے تعاون سے صنعتی پالیسی پر کام شروع کر دیا ہے۔انہوںنے کہاکہ برآمدکنندگان کو ڈی ایل ٹی ایل کے تمام کلیم فوری ادا کیے جائیں گے، مرکزی بینک آف پاکستان کے تصدیق شدہ 40.5 ارب روپے واجب الادا ہیں جبکہ صنعت کاروں کو بلاتعطل بجلی فراہم کرنے کے لیے لوڈشیڈنگ سے استثنٰی دیا جائے گا۔

انہوںنے کہاکہ چائنا پاکستان اقتصادی راہدری پر 9 خصوصی اکنامک زون بنائے جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ چین اور دیگر ممالک کے سرمایہ کاروں کو کارخانے لگانے کی سہولت فراہم کی جائے گی، گزشتہ حکومت نے اس کام کی رفتار میں رکاوٹیں کھڑی کیں اور اب تک ایک بھی خصوصی اکنامک زون فعال نہیں ہوسکا۔وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ 2018 میں ملکی تاریخ میں پہلی ‘

فلم اور کلچر پالیسی ہمارے دور میں کابینہ نے منظور کی تھی، بدقسمتی سے چار سال سے اس پر عمل نہیں ہوسکا،فلم کو صنعت کا درجہ دے دیا گیا ہے اور ایک ارب کی سالانہ لاگت سے ‘بائڈنگ فلم فنانس فنڈ قائم کر دیا گیا ہے اور فنکاروں کے لئے میدیکل انشورنس پالیسی شروع کی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ پانچ سال کا ٹیکس ہالیڈے، نئے سینما گھروں، پروڈکشن ہاؤسز، فلم میوزیمز کے قیام پر پانچ سال کا انکم ٹیکس اور دس سال کے لئے فلم اور ڈرامہ کی برآمد پر ٹیکس ری بیٹ دی جائے گی۔ان کا کہنا تھا کہ سینما اور پروڈیوشرز کی آمدن کو انکم ٹیکس سے استثنیٰ دیا جارہاہے۔

مفتاح اسماعیل نے کہا کہ ایک ارب روپے کی لاگت سے نیشنل فلم انسٹی ٹیوٹ اور پوسٹ فلم پروڈکشن سہولت کے علاوہ نیشنل فلم اسٹوڈیو کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے۔انہوں نے کہا کہ غیر ملکی فلم سازوں کو مقامی سطح پر فلم اور ڈرامے کے مشترکہ منصوبوں پر ری بیٹ دے رہے ہیں تاہم 70 فیصد مواد کی پاکستان میں شوٹنگ کرنا ہوگی۔انہوںنے کہاکہ ڈسٹری بیوٹرز اور پروڈیوسرز پر عائد 8 فیصد ‘وودہولڈنگ ٹیکس’ ختم کیا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ فلم، ڈراموں کیلئے مشینری، آلات اور سازو سامان کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی سے 5 سال کا استثنیٰ دیا جارہا ہے جبکہ سیلز ٹیکس صفر اور انٹرنیٹمنٹ ڈیوٹی ختم کررہے ہیں۔مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ جانب اسکیم اگلے مالی سال کے لیے 8 سو ارب روپے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام ( پی ایس ڈی پی) کے لیے رکھے گئے ہیں، ہم نے 2017-18 میں وفاقی ترقیاتی بجٹ ایک ہزار روب روپے چھوڑا تھا

جو موجودہ حکومت نے تقریباً آدھا کردیا۔ان کا کہنا تھا کہ ہم جاری منصوبوں کو مکمل کرنے پر توجہ دیں گے تاکہ ان پر لگائی گئی رقمیں ضائع نہ ہو جائیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی ترقی پر زیادہ رقم خرچ کی جائے گی تاکہ بلوچستان ملک کے باقی حصوں کے برابر لایا جاسکے۔

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ صوبوں خصوصی علاقہ جات (آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان) کے لئے پی ایس ڈی پی میں ایک سو 36 ارب روپے کر دی گئی ہے۔ڈیم اور دیا میر بھاشا ڈیم کو وقت سے قبل مکمل کرنے کے لئے اضافی رقوم مختص کی گئی ہیں

ان کا کہنا تھا کہ چین کی سرحد سے دونوں بندرگاہوں کو ملانے والی شاہروں کو مکمل کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ سی پیک کے تحت انفرااسکٹرچر اور اقتصادی زونز کے منصوبوں میں تیزی لا کر ترقی کی رفتار بڑھانے اور برا?مدات میں اضافہ کرنے پر توجہ دی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 3 سو 95 ارب روپے انفراسٹرکچر کے لئے رکھے گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ توانائی / بجلی کی ترسیل اور تقسیم کو بہتر بنانا حکومت کی ترجیح ہے، بجلی کے شعبے کے لیے 73 ارب روپے کی رقم مہیا کی جائے گی جس میں سے 12 ارب روپے مہمند ڈیم کی جلد تکیمل کے لیے خرچ کئے جائیں گے۔وزیر خزانہ نے بتایا کہ آبی وسائل کے لئے بڑے ڈئیموں، دیامر بھاشا، مہمند، داوس،

نئی گاج ڈیم اور کمانڈ ایریا پروجیکٹس کے کے لیے بجٹ میں سو ارب روپے رکھے گئے ہیں۔انہوںنے کاہکہ چھوٹے ڈیموںِ نکاسی آب کی اسکمیوں، توانائی اور آبی وسائل کے منصوبوں کے لیے ایک سو 83 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔انہوںنے کہاکہ شاہراہوں اور بندرگاہوں کے لئے 2 سو 2 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، جبکہ حکومتی سرمایہ کاری کے علاوہ اہم شاہراہوں کی تعمیر کے لئے غیر سرکاری سرمایہ بھی استعمال کررہے ہیں،

نجی شعبے کے اشتراک سے شاہراہیں تعمیر کرنے کو مزید فروغ دیا جائے گا۔انہوںنے کہاکہ ایس ڈی جیز کے اہداف اور عوام کی زندگی آسان بنانے کے لئے 70 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے، اس کے علاوہ دیگر اسکیموں کے لئے 40 ارب رکھے گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جاری منصوبوں کے تکمیہل اور اعلیٰ تعلیم کے منصوبوں کے لئے 51 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔

انہوںنے کہاکہ عوام کو صحت کی بہتر خدمات کی فراہمی کے لئے 24 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔وفاقی وزیر نے کہا کہ مشکل وقت میں ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لئے 10 ارب روپے رکھے گئے ہیں جس میں شجرکاری اور قدرتی ماحول بہتر بنانے کے منصوبے شامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) کے شعبے میں تربیت دینے، لیپ ٹاپ فراہم کرنے،

آئی ٹی برآمدات کو فروغ دینے کے لئے 17 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ زارعت اور تحفظِ خوراک کے لئے زرعی شعبے میں جدید مشینوں کا استعمال بڑھانے، لیزر سے زمین ہموار کرنے، آبپاشی میں جدت لانے، معیاری بیجوں کی فراہمی اور زرعی پیداوار کی برآمدات کے لئے 11 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔انہوںنے کہاکہ خصوصی اکنامک زونز میں انفرااسٹرکچر، برآمدات، مؤثر مارکیٹنگ،

معدنیات کے شعبے اور انڈسٹری کے دیگر شعبہ جات کے لئے سرمایہ کاری کے لئے بجٹ میں 5 ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے۔مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ اس سال ٹیکس پالیسی کے بنیادی اصول ی ہیں جن میںبراہ راست ٹیکس یعنی انکم ٹیکس اور کیپٹل ویلیو ٹیکس پر زیادہ انحصار کرنا،

غیر پیدواری اثاثہ جات پر ٹیکس کا نفاذ 3۔ پروگریسو ٹیکس کا فروغ 4. پیداواری اثاثہ جات کی حفاظت ،صاحب ثروت افراد پر ٹیکس شامل ہیں انہوںنے کہاکہ پاکستان میں سرمایہ کاری ے لئے ماحول سازگار نہیں، ٹیکس کا موجودہ نظام ا?جروں کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا،

جبکہ رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرتا ہے جو ناخوشگوار پہلو اور معاشی ترقی میں رکاوٹ ڈالتا ہے۔انہوںنے کہاکہ رئیل اسٹیٹ کی قیمت میں منصوبی اضافے کا باعث بنتا ہے جس سے متوسط طبقے سے رہائشی سہولت دور ہو جاتی ہے، ہم رئیل اسٹیٹ سیکٹر کی حوصلہ شکنی نہیں کرنا چاہیے لیکن ہم اس شعبے کو ایسی سمت میں لے جانا چاہتے ہیں جہاںیہ شہروں کی ترقی کا انجن بن سکے۔

انہوں نے کہا کہ اس لئے ہم عمودی تعمیرات کے کلچر کو فروغ دینا چاہتے ہیں جو کہ پوری دنیا میں رائج ہے جس سے غیر تعمیر شدہ پلاٹوں پر سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہوسکے۔انہوںنے کہاکہ حکومت کاروبار دوست ماحول پیدا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے،

بدقسمتی سے انکم ٹیکس کی وصولی کا بڑا حصہ ‘وود ہولڈنگ’ پر مبنی ہوتا ہے، جو ٹیکس کے ڈھانچے میں بگاڑ پیدا کرتا ہے اور کاروبار کرنے میں مشکلات کا سبب بنتا ہے، ہم اس بگاڑ کا خاتمہ چاہتے ہیں، ہماری ترجیحات میں وودہولڈنگ ٹیکس کی تعداد کو کم کرنا ، فائنل ٹیکس کو کم از کم ٹیکس میں تبدیل کرنا اور کم از کم ٹیکس کو ایڈجسٹبل ٹیکس میں بدلنا ہے۔

بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کی معاشی پریشانی کے ازالے کیلئے ٹیکس چھوٹ کی موجودہ حد لاکھ روپے سے بڑھا کر 12 لاکھ روپے کرنے کی تجویز،کاروباری افراد اور اے او پیز کے لیے چھوٹ کی بنیادی حد 4 لاکھ سے بڑھا کر 6 لاکھ کرنے کی تجویز

،بہبود سیونگ سرٹیفیکیٹس، پینشنرز بینیفٹ اکائونٹ اور شہدا فیملی ویلفیئر اکائونٹ میں سرمایہ کاری سے حاصل ہونے والے منافع پر ٹیکس 10 فیصد سے کم کرکے 5 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ،چھوٹے ریٹیلرز کے لیے فکسڈ انکم اینڈ سیلز ٹیکس کا نظام تجویز کیا گیا جس میں 3 ہزار سے 10 ہزار روپے تک ٹیکس کی

وصولی بجلی کے بلوں کے ساتھ کی جائے گی، اس ٹیکس کی ادائیگی کے بعد ایف بی آر کوئی سوال پوچھنے کا مجاز نہیں ہوگا۔صنعتی اداروں اور دیگر کاروباروں کو پہلے سال میں اِنیشل ڈیپریسئیشن کی مد میں 100 فیصد ایڈجسٹمنٹ کی اجازت دینے کی تجویز دی گئی ،درآمد کے وقت صنعتی اداروں سے حاصل ہونے والے تمام ٹیکسوں کو ایڈجسٹ ایبل قرارر دینے کی تجویز دی گئی ۔

وہ تمام افراد جن کی ایک سے زائد غیر منقولہ جائیداد پاکستان میں موجود ہے اور اس کی مالیت 25 ملین روپے سے زائد ہو اس پر فیئر مارکیٹ ویلیو کے 5 فیصد کے برابر فرضی آمدن/کرایہ تصور کیا جائے گا جس کے نتیجے میں پراپرٹی کی فیئر مارکیٹ ویلیو کے ایک فیصد کی شرح موثر ہوگی، تاہم ہر کسی کا ایک عدد ذاتی رہائشی گھر اس ٹیکس سے مستثنیٰ ہوگا۔

پاکستان میں موجود غیرمنقولہ جائیداد کے کیپٹل گین پر ایک سال ہولڈنگ پیریڈ کی صورت میں 15 فیصد ٹیکس (جو کہ ہر سال ڈھائی فیصد کی کمی کے ساتھ 6 سال کے ہولڈنگ پیریڈ کی صورت میں صفر ہوجائے گا) لاگو کرنے کی تجویز دی گئی ،فائلرز کیلئے پراپرٹی کی خرید و فروخت پر ایڈوانس ٹیکس کی شرح موجودہ ایک فیصد شرح سے بڑھا کر 2 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ۔

بجٹ میں نان فائلرز کی حوصلہ شکنی کے لیے پراپرٹی کے خریداروں کے لیے ایڈوانس ٹیکس کی شرح بڑھا کر 5 فیصد کرنے ،تمام افراد بشمول کمپنیز اور اے او پیز جن کی سالانہ آمدن 300 ملین یا اس سے زائد ہو ان پر 2 فیصد ٹیکس ادا کرنے ،1600 سی سی سے زائد کے موٹر گاڑیوں پر ایڈوانس ٹیکس بڑھانے دی گئی ،

الیکٹرک انجن کی صورت میں قیمت کے 2 فیصد کی شرح سے ایڈوانس ٹیکس بھی وصول کیا جائے گا،نان فائلرز کے لیے ٹیکس کی شرح کو موجودہ 100 فیصد سے بڑھا کر 200 فیصد کیا جائے گا،بینکنگ کمپنیوں پر ٹیکس (جس میں سپر ٹیکس بھی شامل ہے) کی

موجودہ شرح 39 فیصد سے بڑھا کر 42 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی پاکستان کا کوئی بھی شخص جو کسی دوسرے ملک کا ٹیکس ریذیڈنٹ نہیں ہے اسے پاکستان کا ٹیکس ریذیڈنٹ سمجھے جانے کی تجویز دی گئی ،کریڈٹ، ڈیبیٹ اور پری پیڈ کارڈز کے ذریعے پاکستان سے باہر رقم بھیجنے والے فائلرز کے لیے ایک فیصد اور نان فائلرز افراد کے لیے 2 فیصد کی شرح سے ایڈوانس ودہولڈنگ ٹیکس وصول کیا جائے گا،

تاہم یہ ٹیکس واجب الادا ٹیکس کے خلاف ایڈجسٹ ایبل ہوگا،اِن ڈائریکٹ ٹیکس کی وصولی میں ان لینڈ ریونیو کا ایف بی آر کے مجموعی ٹیکس محصولات میں صحت مند اضافہ،سولر پینلز کی درآمد اور مقامی سپلائی کو سیلز ٹیکس سے استثنیٰ دینے کی تجویز دی گئی

،200 یونٹ سے کم بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو سولر پینل کی خریداری پر بینکوں سے آسان اقساط پر قرضے دلائے جائیں گے،ٹریکٹرز، زرعی آلات، گندم، مکئی، کینولا، سورج مکھی اور چاول سمیت مختلف اجناس کے بیجوں کی سپلائی پر ٹیکس واپس لینے کی تجویز دی گئی

،خیراتی ہسپتال کو درآمد/عطیات اور 50 یا اس سے زائد بستروں والے خیراتی/غیر منافع بخش ہسپتالوں کو بجلی سممیت مقامی سپلائیز پر مکمل چھوٹ دینے کی تجویزنئے میکانزم کے تحت ٹیکس دہندگان اے ڈی آر سی میں اپنا نمائندہ اپنی مرضی سے نامزد کرسکتے ہیں، دوسرا نمائندہ ایف بی آر کا افسر اور تیسرا نمائندہ ٹیکس پیئر اور ایف بی آر کی باہمی رضامندی سے ہوگا،

اس میکانزم کی بدولت 3 میں سے 2 ممبران ٹیکس دہندگان کی مرضی سے نامزد ہوں گے۔زرعی مشینری پر کسٹم ڈیوٹی ختم کردی گئی ہے جس میں آبپاشی، نکاسی آب، کاشتکاری، فصلوں کی کٹائی اور اس کی پراسیسنگ، گرین ہائوس فارمنگ اور پودوں کو محفوظ بنانے کے آلات شامل ہیں،

دیگر زرعی صنعتوں کے ساز وسامان، مشینری اور زرعی شعبے پر قائم صنعتوں کے لیے بھی کسٹم ڈیوٹی ختم کی جارہی ہے۔مختلف مینوفیکچرنگ سیکٹرز سے متعلق تقریباً 400 ٹیرف ہیڈنگز پر کسٹمز ڈیوٹی، اضافی کسٹمز ڈیوٹی اور ریگولیرٹی ڈیوٹی کو ریشنلائز کیا گیا ہے

،مصنوعی دھاگے پر ٹیرف کا ڈھانچہ ریشنلائز کیا گیا ہے،30 سے زائد ایکٹو فارما سیوٹیکل انگیریڈینٹس کو کسٹم ڈیوٹی سے مکمل استثنیٰ دے دیا گیا،فرسٹ ایڈ بینڈیجز بنانے والی صنعت کے خام مال کو بھی کسٹم ڈیوٹی سے مزید استثنیٰ دیا گیا ہے،

بجٹ تقریر کے بعد مفتاح اسمٰعیل نے ایوان میں فنانس بل 2022 پیش کیا۔وزیر خزانہ کی جانب سے فنانس بل پیش کیے جانے کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے ایوان کی کارروائی 13 جون بروز پیر سہ پہر 4 بجے تک ملتوی کردی۔



کالم



سات سچائیاں


وہ سرخ آنکھوں سے ہمیں گھور رہا تھا‘ اس کی نوکیلی…

ماں کی محبت کے 4800 سال

آج سے پانچ ہزار سال قبل تائی چنگ کی جگہ کوئی نامعلوم…

سچا اور کھرا انقلابی لیڈر

باپ کی تنخواہ صرف سولہ سو روپے تھے‘ اتنی قلیل…

کرایہ

میں نے پانی دیا اور انہوں نے پیار سے پودے پر ہاتھ…

وہ دن دور نہیں

پہلا پیشہ گھڑیاں تھا‘ وہ ہول سیلر سے سستی گھڑیاں…

نیند کا ثواب

’’میرا خیال ہے آپ زیادہ بھوکے ہیں‘‘ اس نے مسکراتے…

حقیقتیں(دوسرا حصہ)

کامیابی آپ کو نہ ماننے والے لوگ آپ کی کامیابی…

کاش کوئی بتا دے

مارس چاکلیٹ بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی…

کان پکڑ لیں

ڈاکٹر عبدالقدیر سے میری آخری ملاقات فلائیٹ میں…

ساڑھے چار سیکنڈ

نیاز احمد کی عمر صرف 36 برس تھی‘ اردو کے استاد…

وائے می ناٹ(پارٹ ٹو)

دنیا میں اوسط عمر میں اضافہ ہو چکا ہے‘ ہمیں اب…