پیر‬‮ ، 04 اگست‬‮ 2025 

یونیورسٹی کے جینریٹر روم میں بچے کو دودھ پلانے کے لیے جانے والی طالبہ اور اس کا بچہ ہلاک

datetime 10  جون‬‮  2022
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک )وہ ایک طالبہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ماں تھی جسے اپنے بچے کا خیال بھی رکھنا ہوتا تھا۔ یونیورسٹی میں بچے کو دودھ پلانے اور بچے کے ڈائپرز تبدیل کرنے کی ضرورت بھی ہوتی تھی اور یہی ضرورت ماں اور بچے کی جان لے گئی۔بی بی سی اردو کی رپورٹ کے مطابق یہ واقعہ ہے صوبہ خیبر پختونخوا کی بونیر یونیورسٹی کا جہاں منگل کے روز ایک ماں اور اس کے

شیرخوار بچے کی ہلاکت نے حکومت اور انتظامیہ کی کارکردگی پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔یہ واقعہ بونیر یونیورسٹی کے بائی پاس کیمپس میں پیش آیا جہاں شعبہ انگریزی اور شعبہ نفسیات کی کلاسز ہوتی ہیں۔ مذکورہ خاتون اور ان کا بچہ مبینہ طور پر اس کیمپس کے جنریٹر روم میں جان کی بازی ہارے جہاں یہ خاتون اپنے بچے کو دودھ پلانے کے لیے جاتی تھیں۔یونیورسٹی کے ایڈمن افسر اسرار خان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’صبح یہاں بجلی اکثر چلی جاتی ہے تو اس کے لیے جنریٹر لگا دیا جاتا ہے۔ منگل کی صبح جب بجلی گئی تو جنریٹر چلا دیا گیا اور بجلی آنے کے بعد اسے بند کر دیا گیا تھا اور جب خاتون بچے کو لے کر جنریٹر روم میں گئیں تو جنریٹر بند تھا۔‘یونیورسٹی حکام کے مطابق خاتون نے اپنی سہولت کے لیے اس کمرے میں کرسیاں بھی رکھی ہوئی تھیں جہاں وہ بچے کو دودھ پلاتیں اور اس کے ڈائپر تبدیل کیا کرتی تھیں۔حکام کا کہنا ہے کہ خاتون نے اندر سے کمرے کا دروازہ بند کر لیا تھا جبکہ اس کمرے کی کھڑکیاں بھی بند تھیں اور دوبارہ بجلی جانے پر جب آپریٹر جنریٹر چلانے کے لیے کمرے میں جانے لگے تب بھی کمرہ بند تھا۔حکام کے مطابق دروازہ نہ کھلنے پر یونیورسٹی کے ملازمین نے کھڑکیاں توڑیں اور اندر داخل ہوئے جہاں ماں اور بیٹا زیرہلی گیس کی وجہ سے بے ہوش پڑے تھے۔ انھیں باہر نکالا گیا اور ریسکیو 1122 کو بلایا گیا لیکن دونوں کی جان نہیں بچائی جا سکی۔

یونیورسٹی انتظامیہ کے ایک اہلکار نے بتایا کہ جس وقت یہ واقعہ پیش آیا اس وقت یونیورسٹی کی ایمبولینس ایک ٹیچر کو ہسپتال لے کر گئی ہوئی تھی اور اسی لیے فوری طور پر ریسکیو ایمبولینس کو طلب کیا گیا تھا۔تاہم اس یونیورسٹی کے طالبعلم اور اپنی ساتھی طالبہ اور اس کے بچے کو ہسپتال پہنچانے والے جنید علی نے بی بی سی کو بتایا کہ جب وہ منگل کو یونیورسٹی ذرا تاخیر سے پہنچے

تو وہاں حالات بدلے ہوئے تھے اور طالبہ اور ان کے ایک برس کے بچے کی حالت انتہائی تشویشناک تھی۔یونیورسٹی میں نہ کوئی ایمبولینس اور نہ ہی کسی کے پاس کوئی گاڑی تھی۔ میں نے اور میرے ایک ساتھی نے بچے کو اٹھایا اور موٹر سائیکل پر ہسپتال کی جانب روانہ ہو گئے۔

بچے کی حالت تشویشناک تھی۔ ہم جلد سے جلد ہسپتال پہنچنا چاہتے تھے تاکہ جان بچائی جا سکے۔ ہم جب ہسپتال پہنچے تو ڈاکٹروں نے بچے کا معائنہ کیا تو بتایا کہ بچہ اب اس دنیا میں نہیں رہا۔‘انھوں نے بتایا کہ اسی اثنا میں ریسکیو 1122 کی ایمبولینس ماں کو لے کر ہسپتال پہنچ گئی جہاں انھیں طبی امداد دی گئی۔

یونیورسٹی حکام کے مطابق ڈاکٹروں نے ماں کو آئی سی یو میں شفٹ کیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکیں۔مذکورہ خاتون بی ایس انگلش کے آٹھویں سمسٹر میں زیر تعلیم تھیں جبکہ ان کے ایک دیور ناصر علی اسی یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔ناصر علی نے بی بی سی کو بتایا کہ

’وہ صبح خوشی خوشی یونیورسٹی گئیں، وہ کبھی کبھی بچے کو ساتھ لے کر یونیورسٹی آتی تھی اور کبھی وہ بچے کو گھر میں چھوڑ جایا کرتی تھیں۔ گذشتہ روز انھیں یونیورسٹی سے اطلاع ملی کہ اس طرح واقعہ پیش آیا ہے اور ماں اور بیٹا وفات پا گئے ہیں۔‘ماں اور بیٹے کی ہلاکت کے بعد یونیورسٹی میں طلبا و طالبات نے احتجاج کیا جس کے بعد یونیورسٹی تا حکم ثانی بند کر دی گئی ہے۔

طلبا نے اس واقعے کی تحقیقات کے لیے اعلیٰ سطح کی کمیٹی قائم کرنے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ غفلت برتنے والے افراد کے خلاف کارروائی کی جا سکے۔طلبا کا کہنا ہے کہ ’یونیورسٹی میں طالبات کے لیے کوئی مناسب مقام نہیں ۔ ایک کامن روم ہے اور بڑی تعداد میں طالبات ہیں اور اس ایک کامن روم میں مناسب جگہ بھی نہیں۔

یونیورسٹی کے ایڈمن افسر اسرار خان نے بی بی سی کو بتایا کہ اس کیمپس میں طالبات کے لیے علیحدہ کامن روم موجود ہے، جہاں طالبات فارغ وقت میں بیٹھتی ہیں تاہم ان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی میں طالبات کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔

بونیر میں پیش آنے والے اس واقعے نے ملک میں خواتین خصوصاً ماؤں کے لیے دفاتر اور تعلیمی اداروں میں دستیاب سہولیات پر بحث چھیڑ دی ہے۔پاکستان کے اکثر بڑے شہروں میں بھی جہاں خواتین کام کرتی ہیں یا خواتین کا آنا جانا ہوتا ہے وہاں ان کی ضروریات کے مطابق بنیادی سہولیات دستیاب ہی نہیں ہوتیں

مثال کے طور پر خواتین کو کس وقت بچے کو فیڈ کروانا ہوتا ہے اس کے لیے سہولت نہ تو بیشتر ہسپتالوں میں ہے اور نہ ہی تعلیمی اداروں اور دیگر دفاتر میں۔پاکستان میں خواتین کے لیے عوامی سطح پر ایسے مقامات میسر نہیں جہاں وہ بچے کو دودھ پلا سکیں۔

لیکن کیا واقعی ایک ماں کے لیے اپنے بچے کو کسی عوامی مقام پر دودھ پلانا اتنا ہی مشکل تجربہ ہوتا ہے اور یہ عمل اس کے لیے باعث شرمندگی ہو جاتا ہے اور کیا معاشرے میں اسے ایک ناگوار عمل سمجھا جاتا ہے؟عائشہ دو بچوں کی ماں ہیں اور وہ کہتی ہیں کہ

انھوں نے اپنے دونوں بچوں کو چاہنے کے باوجود ایک ماہ سے زیادہ عرصے تک اپنا دودھ نہیں پلایا۔’ایک تو نوکری، دوسرے اگر گھر سے باہر جاتی اور اپنی گاڑی میں ہی بچے کو دودھ پلانے کی کوشش کرتی تو شوہر شور کرنے لگتے کہ کیا کر رہی ہو گھر چل کر دودھ پلانا

۔وہ کہتی ہیں کہ ’سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ جیسے آپ کو بھوک لگتی ہے اس طرح بچے کو بھی بھوک لگتی ہے۔ آپ آنکھیں پھاڑ کر دودھ پلاتی ماں کو دیکھنے کے بجائے اس مسئلے کو سمجھیں کہ کسی عورت کو سر عام بیٹھ کر بچے کو دودھ پلانے کا شوق نہیں ہوتا اس کی مجبوری ہو سکتی ہے تو زیادہ بہتر ہو گا۔

یمنیٰ خان کہتی ہیں کہ ’لوگ یہ تو بہت آرام سے کہہ دیتے ہیں کہ بچے کو دودھ پلاتی ہو تو گھر سے باہر نہ نکلا کرو تاکہ باہر جا کر دودھ نہ پلانا پڑے لیکن کوئی یہ نہیں سمجھتا کہ ایک عورت دو سال تک گھر میں نہیں بیٹھ سکتی۔ زندگی کی ضروریات کے لیے اسے گھر سے نکلنا ہی پڑتا ہے۔

یمنیٰ نے اپنے تجربات کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ ’بھلے اپنی گاڑی میں سفر کروں یا شہر سے باہر ٹرین پر سفر کروں مجھے بڑی چادر اوڑھ کر دودھ پلاتے ہوئے بھی مردوں کی نظریں خود پر گڑی محسوس ہوتی تھیں۔ بطور ماں میرے لیے یہ بہت مشکل ہوتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ لوگوں کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ آپ کا بچہ بھوک سے بلک رہا ہو اور آپ کے گھر کی کوئی عورت مجبوری میں اسے عوامی مقام پر دودھ پلائے اور اردگرد گزرنے والے مرد اس جانب جھانکیں تو کیا آپ کو برا محسوس نہیں ہو گا۔

ایک اور خاتون آمنہ نے اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ماں اور بچے کا رشتہ ایک مقدس رشتہ ہوتا ہے اور اسے احترام دینا ہر ایک کے لیے لازم ہے لیکن ہمارے معاشرتی رویے دودھ پلاتی ماں کو بھی شرمندگی سے دوچار کر دیتے ہیں۔ان کے مطابق

’بچے کو دودھ پلاتے ہوئے ماں خود پر پڑنے والی گندی نظر سے ویسے بھی خوفزدہ ہوتی ہے اور وہ سوچتی ہے کہ مجھے اپنے بچے کو ان سب سے چھپا کر رکھنا ہے۔ ہمیں بطور انسان یہ سوچنا چاہیے کہ وہ بھی اپنی ماں کا دودھ پی کر ہی بڑے ہوئے ہیں۔



کالم



سات سچائیاں


وہ سرخ آنکھوں سے ہمیں گھور رہا تھا‘ اس کی نوکیلی…

ماں کی محبت کے 4800 سال

آج سے پانچ ہزار سال قبل تائی چنگ کی جگہ کوئی نامعلوم…

سچا اور کھرا انقلابی لیڈر

باپ کی تنخواہ صرف سولہ سو روپے تھے‘ اتنی قلیل…

کرایہ

میں نے پانی دیا اور انہوں نے پیار سے پودے پر ہاتھ…

وہ دن دور نہیں

پہلا پیشہ گھڑیاں تھا‘ وہ ہول سیلر سے سستی گھڑیاں…

نیند کا ثواب

’’میرا خیال ہے آپ زیادہ بھوکے ہیں‘‘ اس نے مسکراتے…

حقیقتیں(دوسرا حصہ)

کامیابی آپ کو نہ ماننے والے لوگ آپ کی کامیابی…

کاش کوئی بتا دے

مارس چاکلیٹ بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی…

کان پکڑ لیں

ڈاکٹر عبدالقدیر سے میری آخری ملاقات فلائیٹ میں…

ساڑھے چار سیکنڈ

نیاز احمد کی عمر صرف 36 برس تھی‘ اردو کے استاد…

وائے می ناٹ(پارٹ ٹو)

دنیا میں اوسط عمر میں اضافہ ہو چکا ہے‘ ہمیں اب…