کابل/نیویارک (این این آئی )افغان طالبان نے قندھار میں بھارتی قونصل خانے پر قبضہ کر لیا، ویڈیو میں مسلح طالبان قونصل خانے کے مختلف حصوں میں جاتے دکھائی دے رہے ہیں۔میڈیارپورٹس کے مطابق قندھار پر قبضے کے لیے افغان سیکیورٹی فورسز اور طالبان میں شدید جھڑپیں جاری ہیں۔دوسری جانب افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی کے باعث بھارت
کی پریشانی بڑھ گئی ہے اور بھارتی سفارتکاروں کا افغانستان سے انخلا جاری ہے، جس کی بھارتی وزارت خارجہ نے تصدیق بھی کردی ہے۔ذرائع نے دعوی کیا کہ بھارتی عملے اور مبینہ را ایجنٹوں کو نکالنے کے لیے آئے جہاز میں افغان فوج کے لیے اسلحہ بھی لایا گیا۔بھارت کی جانب سے ایک طرف طالبان سے مزاکرات جبکہ دوسری طرف افغان فوج کو اسلحہ دینے کا سلسلہ بھی جاری ہے، جس پر تجزیہ کاروں نے سوالات اٹھا دیے ہیں۔کابل اور قندھار ایئرپورٹ پر بھارتی فضائیہ کے سی17 کارگو طیاروں کی تصاویر بھی سامنے آگئیں۔کابل اور قندھار ایئرپورٹ پر بھارتی جہازوں سے سامان اتارتے ہوئے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔دوسری جانباقوام متحدہ نے کہا ہے کہ تشدد کے واقعات میں اضافے سے افغان عوام کی پریشانیوں میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ دوسری طرف افغان حکومت نے یورپی ملکوں سے افغان تارکین وطن کی بے دخلی کم از کم تین ماہ کے لیے روک دینے کی اپیل کی ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق افغانستان ان دنوں متعدد
بحرانوں سے دوچار ہے۔ ایک طرف عسکریت پسند ملک کے مختلف علاقوں پر تیزی سے قبضہ کررہے ہیں، حالانکہ سرکاری فورسز ان کا مقابلہ کررہے ہیں۔ دوسری طرف اندرون ملک خاندانوں کی نقل مکانی کا نیا سلسلہ شروع ہوگیا ہے جبکہ کووڈ کی تیسری لہر نے حالات کو مزید پیچیدہ کردیا ہے۔ اس سنگین صورت حال کے مد نظر افغانستان حکومت
نے یورپی ملکوں سے درخواست کی کہ وہ افغان تارکین وطن کی جبری ملک بدری کم از کم تین ماہ کے لیے موخر کردیں۔افغانستان کی مہاجرین اور وطن واپسی کی وزارت نے ایک بیان میں کہاکہ ملک میں دہشت گرد گروپ طالبان کی طرف سے تشدد میں اضافہ اور کووڈ انیس کی وبا کی تیسری لہرکی وجہ سے بڑے پیمانے پر معاشی اور سماجی بے چینی
پیدا ہوگئی ہے اور یہ لوگوں کے لیے پریشانی اور مسائل کا سبب بن رہے ہیں۔اس وقت بہت سے یورپی ممالک افغان پناہ گزینوں کی درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے انہیں جنگ زدہ ملک میں واپس بھیج رہے ہیں۔ مثال کے طورپر جرمنی سے افغانوں کے گروپ کو بے دخل کرکے کابل بھیجا جا رہا ہے۔افغانستان کی مہاجرین اور وطن واپسی کی وزارت نے اپنے
بیان میں مزید کہا کہ یورپ سے افغانوں کی واپسی پریشان کن ہے۔ہم میزبان ملکوں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ افغان پناہ گزینوں کو اگلے تین ماہ تک جبری ملک بدر کرنے سے گریز کریں۔اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں سے متعلق ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق افغان مہاجرین کی سب بڑی اکثریت ہمسایہ ملک پاکستان میں مقیم ہے جس کے بعد ایران اور یورپ کا نمبر آتا ہے۔ ادارے نے 2018 میں افغانستان سے پچیس لاکھ پناہ گزینوں کا اندراج کیا تھا۔