چلتے چلتے جگر کے جوتے گھس گئے تو اُنہوں نے سوچا ایک جوتا ہی بنوا لیا جائے، سرائے کے قریب ہی ایک جوتے کی دکان تھی، وہ اُس دکان پر پہنچے اور پاؤں کا ناپ دے آئے، دکان کا مالک اُسے دلچسپ معلوم ہوا، وہ بھی کچھ کم دلچسپ نہیں تھے، تھوڑی دیر میں دونوں خوب گھل مل گئے، یہ شخص بجنور کا رہنے والا تھا، اُس کا خاندان تجارت پیشہ تھا، کبھی اچھے دن دیکھے تھے لیکن اُن دنوں معاشی بدحالی کا شکار تھا۔
اس چھوٹی سی دکان پر گزارہ تھا۔ اب یہ دکان اُس کا مستقل ٹھکانہ بن گئی، وہ شہر کا چکر لگا کر لوٹتا یا کسی شہر کی یاترا کے بعد واپس آتا تو اسی دکان پر بسرام کرتا۔ دوستی اتنی بڑھی کہ جگر اُس کے گھر بھی جانے لگے کچھ دن بعد گھر کی عورتوں سے اُن کا پردہ رسمی سا رہ گیا، کچھ دن اُن کی مترنم غزلیں پرد ے کے پیچھے سُنی جاتی رہیں پھر سب سامنے آ گئے۔ اُن میں وحیدن بھی تھی، وحیدن کو اُس کے شوہر نے چھوڑ دیا تھا اور وہ باپ کے گھر بیٹھی ہوئی تھی۔ وحیدن کو حسین کہا جا سکتا تھا، اُس کے حسین چہر ے، اُداس ہنسی اور نیچی نگاہوں نے جگر کو ایک اور ٹھوکر کھانے پر مجبور کر دیا۔
۔کچھ بات بن پڑی نہ دلِ داد خواہ سے
کیا جانے کیا وہ کہہ گئی نیچی نگاہ سے
کوئی نہ بچ سکا تری قاتل نگاہ سے
ذرے بھی صدقے ہو گئے اُٹھ اُٹھ کے راہ سے
یہ جانتا ہوں جانتے ہو میرا حالِ دل
یہ دیکھتا ہوں دیکھتے ہو کس نگاہ سے
ایک دن اُنہوں نے یہ اشعار سُنائے تو وحیدن کو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ ان اشعار کا مخاطب کون ہے، وہ بہت دن سے جگر کی آنکھوں کو پڑھ رہی تھی اور اب اُسے یقین ہو گیا تھا کہ اُس کی آنکھوں میں وہ بسی ہوئی ہے، کچھ عرصہ میں ہی وہ رشتہِ ازدواج میں منسلک ہو گئے۔
کچھ عرصہ بعد وحیدن بیمار ہو گئی، وحیدن ایک مشرقی عورت کی طرح سب کچھ برداشت کر رہی تھی، لیکن اندر ہی اندر گھٹتی جا رہی تھی، جگر جب ہوش میں ہوتا تو اُس کی یہ حالت دیکھ کر کڑھتا لیکن مدہوش ہوتے ہی اُسے کچھ یاد نہ رہتا۔ بیماری طول پکڑتی گئی، ڈاکٹروں نے اسے ٹی بی بتائی تھی، معقول علاج نہ ہوسکا اور وہ گور کنارے پہنچ گئی، جگر کو اب ہوش آیا لیکن وہ نا اُمید نہیں تھا۔
۔چشمِ اُمید میں ہے جان ابھی تھوڑی سی
ابھی دھندلا سا نظر آتا ہے اُجالا مجھے
اُمید کی یہ روشنی روز بہ روز کم ہوتی جا رہی تھی۔ اُسے وہ زمانہ یاد آ رہا تھا جب وحیدن سے اُس کی ملاقات ہوئی تھی، اُس بے چاری نے مجھ سے کیسی کیسی توقعات وابستہ کی ہوں گی۔ افسوس! میں اُس کی کسی توقع پر بھی پورا نہیں اُتر سکا۔ ” سُنئیے ” وحیدن کی کمزور آواز اُبھری۔ ” کیا پانی چاہئیے؟
” جگر نے پوچھا۔” یاد ہے؟ جب آپ ہمار ے گھر آئے تھے تو میں ضد کر کے آپ سے غزل سُنا کرتی تھی۔ “” یاد تو ہے”۔” آج بھی کوئی غزل سُنائیے۔” تم سو جاؤ، تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔” ” اسی لیے تو کہہ رہی ہوں۔ کیا خبر پھر موقع ملے نہ ملے۔” جگر کے آنسو اُس کے دل میں اُترنے لگے، اُنہوں نے گھبرا کر غزل شروع کر دی۔ ایسے نہیں، ترنم سے سُنائیے، آپ کے ترنم ہی نے تو مجھے خریدا تھا۔
“جگر نے اپنے ترنم کی قیمت کو آج محسوس کیا تھا۔ اُنہوں نے دل کا حال لفظوں میں کہہ دیا۔۔۔
۔صبر کے ساتھ مرا دل بھی لے جائیں آپ
اس قدر رحم مر ے حال پہ فرمائیں آپ
مری رگ رگ میں سما کر بھی یہ پردہ مجھ سے؟
ظلم ہے ظلم ہے، آئینے سے شرمائیں آپ
کر دیا دردِ محبت نے مرا کام تمام
اب کسی طرح کی تکلیف نہ فرمائیں آپ
نالے کرتے ہوئے رہ رہ کے یہ آتا ہے خیال
کہ مری طرح نہ دل تھام کے رہ جائیں آپ
اور جب وہ اس شعر پر پہنچے تو ایک ساتھ دونوں کی ہچکیاں بندھ گئیں۔۔۔
دیکھئے میری تمناؤں کا احساس رہے
باغِ فردوس میں تنہا نہ چلے جائیں آپ
آپ کیوں روتے ہیں؟ بد نصیب تو میں ہوں کہ آپ کی شہرت کو کمال تک پہنچتے ہوئے نہیں دیکھ سکی۔” تم زندہ رہو اسی میں میری شہرت ہے۔” ” اب وقت آ گیا ہے، شاید یہیں تک آپ کا میرا ساتھ تھا۔”
وحیدن نے جگر کے ہاتھوں میں دم توڑ دیا، یہ پہلا موقع تھا جب اُنہوں نے رونا چاہا مگر اُن کے آنسو خشک ہو گئے۔۔۔
محبت ميں اک ايسا وقت بھی دل پر گزرتا ہے
کہ آنسو خشک ہو جاتے ہيں طغيانی نہيں جاتی
آنکھ سے آنسو نہ بہے لیکن دل میں تو دریا ٹھاٹھیں مار رہا تھا، وہ لہریں گنتا رہا اور قدم گن گن کر قبرستان تک پہنچ گیا، سب لوٹ آئے مگر وہ وہیں کھڑا رہا، دم بخود، حیراں حیراں، پھر وہ دو زانو بیٹھ گیا، قبر کے پھولوں میں ترنم کے پھول شامل کرنے کے لیے، قبرستان اُس کی درد بھری آواز سے سسکیاں لے رہا تھا۔۔۔
کسی صورت نمودِ سوز پہچانی نہیں جاتی
بُجھا جاتا ہے دل چہر ے کی تابانی نہيں جاتی
جسے رونق تر ے قدموں نے د ے کر چھین لی رونق
وہ لاکھ آباد ہو، اُس گھر کی ویرانی نہیں جاتی
صداقت ہو تو دل سينے سے کھنچنے لگتے ہيں واعظ
حقيقت خود کو منوا ليتی ہے مانی نہيں جاتی
مجھے تو کر دیا سیراب ساقی نے مر ے, لیکن
مری سیرابیوں کی تشنہ سامانی نہیں جاتی
جلے جاتے ہيں بڑھ بڑھ کر مٹے جاتے ہيں گر گر کر
حضورِ شمع پروانوں کی نادانی نہيں جاتی
وہ يوں دل سے گزرتے ہيں کہ آہٹ تک نہيں ہوتی
وہ يوں آواز ديتے ہيں کہ پہچانی نہيں جاتی
محبت ميں اک ايسا وقت بھی دل پر گزرتا ہے
کہ آنسو خشک ہو جاتے ہيں طغيانی نہيں جاتی
جگر وہ بھی ز سر تا پا محبت ہی محبت ہيں
مگر اُن کی محبت صاف پہچانی نہيں جاتی۔۔۔!!