جب بھی مجھے اس پیچیدہ سوال کا سامنا ہوتا ہے کہ کیا واقعی مردوں اور عورتوں کے رویوں کا تعین ان کے دماغ سے ہوتا ہے، تو میں ایک طرف کھڑا ہوتا ہوں اور پروفیسر ایلس رابرٹس اس بحث کی دوسری طرف۔
میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے جسم کی طرح ہمارے دماغ کی تشکیل میں بھی ان ہارمونز یا کیمیائی مادوں کا اثر ہوتا ہے جن سے ہمارا واسطہ ماں کے پیٹ میں پڑتا ہے۔
میرا خیال ہے کہ اگر آپ میرے نقطہ نظر سے اتفاق کرتے ہیں تو ہمیں یہ بات بخوبی سمجھ آ جاتی ہے کہ کئی کاموں میں مرد کیوں اچھے ہوتے ہیں اور کئی کام خواتین کیوں بہتر کرتی ہیں۔ مثلاً مرد وہ کام بہتر کرتے ہیں جن کا تعلق مشینوں وغیرہ سے ہوتا ہے جبکہ خواتین اپنے ہمدردانہ دماغ کی وجہ سے دوسروں کو سمجھنے میں بہتر ہوتی ہیں۔اگرچہ ہماری تربیت بھی ہمارے دماغوں پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتی ہے لیکن میرا خیال ہے میرا نظریہ زیادہ غلط نہیں کہ مردوں اور خواتین کے دماغ مختلف ہوتے ہیں۔دوسری جانب ایلس کا خیال ہے کہ یہ فرضی باتیں ہیں اور یہ کہنا کہ دماغ نر یا مادہ ہوتا ہے، اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہم تجربات کیسے کرتے ہیں۔دو قسم کے دماغ ہم میں سے زیادہ تر لوگوں کے دماغ یا تو زیادہ ہمدردانہ ہوتے ہیں یا زیادہ انتظامی۔ زیادہ تر مرد انتظامی قطب کے قریب ہوتے ہیں جبکہ زیادہ تر خواتین ہمدردانہ قطب کے قریب، تاہم بے شمار لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے دماغ ان قطبین کے درمیان ہوتے ہیںایلس کو خدشہ ہے کہ اگر ہم یہ تسلیم کر لیں کہ مردوں کا دماغ تکنیکی معاملات میں زیادہ چلتا ہے تو اس سے سائنس پڑھنے میں لڑکیوں کی حوصلہ شکنی ہو گی۔ایک محقق جس نے میرے خیالات کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ہے، ان کا نام پروفیسر بیرن کوہن ہے اور وہ برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی سے منسلک ہیں۔
پروفیسر بیرن کوہن کہتے ہیں کہ بنیادی طور پر دماغ ’دو قسموں‘ کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو ’ہمدردانہ‘ ہوتے ہیں۔ ہمدردانہ دماغ یہ جاننے میں اچھے ہوتے ہیں کہ دوسرا شخص کیا سوچ رہا ہے یا کیا محسوس کر رہا ہے۔
دوسری قسم کے دماغ ’انتظامی‘ ہوتے ہیں۔ اس قسم کے دماغوں کی دلچسپی یہ ہوتی ہے کہ اپنے ارد گرد کے سسٹم یا نظام کو حصوں میں توڑ کر اسے سمجھا جائے اور اس کا تجزیہ کیا جائے۔ اس قسم کی دماغوں کو آپ کسی قدر غیر دلچسپ یا ایک ہی دھن میں لگے دماغ کہہ سکتے ہیں۔ہم سب لوگ دراصل ان دو قسم کے دماغوں کا مجموعہ ہوتے ہیں، لیکن ہم میں سے زیادہ تر لوگوں کے دماغ یا تو زیادہ ہمدردانہ ہوتے ہیں یا زیادہ انتظامی۔ زیادہ تر مرد انتظامی قطب کے قریب ہوتے ہیں جبکہ زیادہ تر خواتین ہمدردانہ قطب کے قریب، تاہم بے شمار لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے دماغ ان قطبین کے درمیان ہوتے ہیں۔
لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا دماغ کے نر یا مادہ ہونے کا تعلق سراسر ہماری تربیت سے تو نہیں؟پروفیسر بیرن کوہن کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔ ان کے بقول چونکہ ماں کے پیٹ میں ہمیں مختلف قسم کے ہارمونز سے پالا پڑتا ہے، اس وجہ سے ہمارے رویے بھی نر یا مادہ ہو جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں پرفیسر کوہن کے جو نتائج سب سے زیادہ حیرت انگیز ہیں، ان کی بنیاد ان کی وہ طویل مدتی تحقیق ہے جس میں وہ کئی بچوں پر ان کی پیدائش سے پہلے سے تحقیق کر رہے ہیں۔اس تحقیق میں پروفیسر کوہن نے کئی بچوں کی ماو¿ں کے رحم سے کیمیائی مادے کے نمونے حاصل کیے جب یہ خواتین 16 ہفتوں کی حاملہ تھیں۔ پروفیسر کوہن کی ٹیم نے اس کیمیائی مادے کے معائنے میں اس بات کا تعین کیا کہ اس مائع میں ٹیسٹوسٹرون نامی اینزائم کتنی مقدار میں تھا۔مرد وہ کام بہتر کرتے ہیں جن کا تعلق مشینوں وغیرہ سے ہوتا ہے
پوفیسر کوہن نے مجھے بتایا کہ ’پیدائش سے پہلے رحم میں بچے کے ارد گرد موجود پانی میں ٹیسٹوسٹرون کی مقدار جس قدر زیادہ ہوتی ہے، بچہ معاشرتی لحاظ سے اتنی ہی زیادہ دیر میں سیکھتا ہے۔ مثلاً ایسا بچہ اپنی پہلی سالگرہ تک دوسروں لوگوں سے آنکھیں کم ملاتا ہے۔‘
اس کے علاوہ زیادہ ٹیسٹوسٹرون میں پلنے والے بچے نئے الفاظ سیکھنے میں دیر لگاتے ہیں اور پرائمری سکول میں بھی دوسرے بچوں کے ساتھ زیادہ ہمدردی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔
پرفیسر کوہن کا کہنا تھا کہ زیادہ ٹیسٹوسٹرون میں پلنے کا نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ بچے میں اپنے ارد گرد کی چیزوں کی سمجھ زیادہ ہوتی ہے۔ ’ٹیسٹوسٹرون کی زیادہ مقدار میں پلنے والے بچے کسی چیز کے ڈایزائن کی خفیہ یا غیر واضح ساخت کو زیادہ جلدی سمجھ لیتے ہیں۔‘
نر اور مادہ دماغوں میں فرق کی ایک دلیل ا±س تحقیق سے بھی دی جاتی ہے جو امریکہ کی یونیورسٹی آف پینسلوینیا کے سائنسدانوں نے کی ہے۔
اس تحقیق میں ماہرین نے آٹھ سے 22 سال کے درمیان کے 949 مردوں اور خواتین کے دماغوں کو سکین کیا اور مردانہ اور زنانہ دماغوں میں عجیب و غریب فرق دیکھے۔
اس تحقیق سے منسلک ماہر پروفیسر ر±وبن گر کے مطابق مردانہ دماغوں میں ہمیں دماغ کے اگلے اور پچھلے حصوں کے درمیان زیادہ رابط دکھائی دیا، جس کا مطلب یہ تھا کہ مرد ’جو کچھ دیکھ رہے ہوتے ہیں اور اس کے بارے میں جو رد عمل ظاہر کرتے ہیں، ان دونوں میں زیادہ رابطہ ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ نر دماغ جو دیکھتا ہے اس پر فوراً ردعمل ظاہر کر دیتا ہے۔‘
دوسری جانب عورتوں کے دماغوں کے دائیں اور بائیں حصوں میں زیادہ تاریں اور زیادہ رابطہ دکھائی دیا۔عورتوں کے دماغوں کے دائیں اور بائیں حصوں میں زیادہ تاریں اور زیادہ رابطہ دکھائی دیااسی سلسلے کی ایک دوسری تحقیق میں ڈاکٹر رگینی ورمن کا کہنا تھا کہ ’یہ حقیقت کہ مادہ دماغ کے مختلف حصے آپس میں رابطہ کر سکتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ایک وقت میں ایک سے زیادہ کام کر سکتے ہیں اور آپ کا دماغ وہ کام اچھے طریقے سے کر سکتا ہے جن کا تعلق جذبات سے ہوتا ہے۔‘لیکن ایلس اِن تنائج سے اتفاق نہیں کرتیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ بات سچ بھی مان لی جائے کہ مردوں اور خواتین کے دماغوں میں بچھی تاریں ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں، اس سے یہ بات ثابت نہیںہوتی ہے کہ نر اور مادہ دماغ پیدائشی طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔انسانی دماغ دراصل ایک نہایت ہی نرم مادے پر مشتمل ہوتا ہے جسے آسانی سے پچکایا جا سکتا ہے، خاص طور پر لڑکپن میں دماغ کی ساخت کو آسانی سے پچکایا یا موڑا جا سکتا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو لڑکیوں اور لڑکوں میں جو دماغی فرق دکھائی دیتا ہے اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ آپ لڑکوں اور لڑکیوں سے مختلف توقعات رکھتے ہیں اور لڑکوں اور لڑکیوں کے دماغوں پر معاشرتی دباو¿
کیا واقعی مردوں اور خواتین کے دماغوں میں کوئی فرق ہوتا ہے؟
24
نومبر 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں