اسلام آباد(نیو ز ڈیسک )عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ کاربن مونوآکسائیڈ ایک ایسی گیس ہے جو خاموشی سے سیکڑوں لوگوں کی ہلاکت کا سبب بنتی ہے لیکن اب سائنس دانوں نے برطانیہ میں ایسی گیس کا انکشاف کیا ہے جو کاربن مونوآکسائیڈ سے 27 گنا زیادہ ہلاکت خیز ہے اور ایک سال میں ایک ہزار سے بھی زائد لوگوں کو خاموشی سے موت کی نیند سلا دیتی ہے۔
برطانیہ میں کی گئی ایک تحقیق میں سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ریڈن نامی گیس تابکاری شعاعوں سے نکلنے والی بے رنگ اور بغیر خوشبو والی گیس ہے جو قدرتی طور پر نہ صرف برطانیہ بلکہ دیگر کئی ممالک میں پائی جاتی ہے اور خاموش قاتل کی طرح اور کاربن مونوآکسائیڈ کے مقابلے میں 27 گنا زیادہ زہریلا ہے، یہ گیس تابکاری عناصر پورینیم اور دیگر سے مختلف مقدار سے خارج ہوتی ہے اورعام طور پر قدرتی طور پر چٹانوں اور مٹی میں موجود ہوتی ہے۔
کانوں میں کام کرنے والے کان کنوں پر1950 اور 1960 میں امریکا میں کی گئی وبائی امراض پر تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ ان لوگوں میں پھیپھڑوں کے کینسر اور ریڈن میں گہرا تعلق موجود ہے کیوں کہ ریڈن زمین کے اندر سے خارج ہوتی ہے اور جلدی سے فضا میں حل ہوجاتی ہے جہاں اس کا نقصان اتنا زیادہ نہیں ہوتا تاہم یہی گیس عمارتوں، تہہ خانوں اور زیر زمین کام کرنے والی جگہوں میں جاتی ہے اور وہاں یہ انتہائی خطرناک ہوجاتی ہے۔ 1970 اور 1980 کے درمیان کی گئی تحقیق میں اس گیس کی رہائشی علاقوں میں ارتکاز کا لیول کئی گنا بڑھنے کا انکشاف سامنے آیا جب کہ 1991 میں میں عمارتوں میں ریڈن سے محفوظ رکھنے کے لیے قوانین متعارف کرائے اور ریڈن کے لیول فوری رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ریڈن جسم میں ٹشو کی تباہی کا سبب نہیں بنتی بلکہ باسی اور خراب اشیا سے اٹھنے والی بدبو سے مل کر اور خطرناک ہوجاتی ہے اسی لیے کہا جاتا ہے کہ باسی اشیا میں ریڈن 222 ( یورینیم )اور ریڈن 220 (تھورون اور تھوریم) بڑی مقدار میں موجود ہوتی ہے اور یہ آسو ٹوپس پھیپھڑوں میں کینسر کا سببب بنتے ہیں۔ برطانیہ میں کی گئی نئی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ سال بھر میں 1100 افراد کی اموات کی وجہ ریڈن کا زیادہ ارتکاز ہے جب کہ ریڈن سے سگریٹ نوشی نہ کرنے والوں میں 200 میں ایک جب کہ سگریٹ نوشوں میں یہی تناسب 7 میں سے ایک ہے۔
ہزار لوگوں کی زندگی کا خاتمہ کرنے والی زہریلی گیس کا انکشاف
24
نومبر 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں