پیر‬‮ ، 14 جولائی‬‮ 2025 

’حکومت کا ریڈیو کو صعنت کا درجہ دینے پر غور

datetime 13  اکتوبر‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(نیوز ڈیسک)پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی یعنی پیمرا کا کہنا ہے کہ وہ میڈیا کی ریٹنگ کی سیاست میں نہیں پڑنا چاہتا اور اس کا بندوبست نجی شعبے کو خود کرنا ہوگا۔پیمرا کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت ملک میں ایف ایم ریڈیو کو ایک صعنت کا درجہ دینے پر غور کر رہی ہے تاکہ اس کی ترقی ممکن ہوسکے۔یہ باتیں پیمرا کے عبوری چیئرمین کمال الدین ٹیپو نے بی بی سی ورلڈ سروس کے اشتراک سے اسلام آباد میں ایف ایم ریڈیو کے مستقبل کے بارے میں ایک روزہ سیمینار سے خطاب میں کیں۔پاکستان میں ٹی وی کے برعکس ریڈیو کی ریٹنگز کا کوئی انتظام نہیں لہذا کسی کو زیادہ نہیں معلوم کہ کون سا سٹیشن کتنا سنا جاتا ہے اور سامعین کیا زیادہ سنا پسند کرتے ہیں۔؟سیمینار میں اس شعبے سے وابستہ ملک بھر سے سو سے زائد مالکان اور ماہرین نے شرکت کی۔جب میں نے ادھار لے کر اپنا ریڈیو شروع کیا تو بی بی سی کی خبریں چلانے پر مجھے غدار کہا گیا لیکن میں خوشی ہوں کہ بی بی سی اور پیمرا اکٹھے اس شعبے کی ترقی کے لیے سرگرم ہیں۔اسلام آباد، ایبٹ آباد اور ویہاڑی سے ایف ایم پاور 99 کے سربراہ نجیب احمد کا اپنے خطاب میں کہنا تھا کہ اس شعبے میں پاکستان میں ٹیلنٹ بھی ہے، ٹیکنالوجی بھی ہے لیکن بدقسمتی سے مقصد واضح نہیں ہے۔انھوں نے کہا ’ میرے نزدیک دو افراد کو بٹھا کر بحث کروانا ریڈیو کا کوئی مواد نہیں ہے۔ ہمیں مواد کا ایک قومی ذخیرہ بنانا چاہیے تاکہ سننے والوں کو بہتر مواد تیار کرکے دیا جاسکے۔‘ایف ایم مالکان کی یہ شکایت رہی کہ پیمرا نے ریڈیو کو مکمل طور پر نظرانداز کیا ہے لیکن اب کچھ عرصے سے رابطہ بڑھے ہیں۔نیعم مرزا کا کہنا تھا ’پیمرا نے اس سال یہ تیسری کانفرنس منعقد کی ہے جو اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ یہ ریگولیٹری ادارہ اب ریڈیو کو بھی سنجیدگی سے لیتا ہے۔‘ریڈیو پاکستان کے سابق ڈائریکٹر جنرل مرتضی سولنگی نے اپنے خطاب میں ریڈیو کے نجی شعبے کو درپیش مسائل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ لائسنس کے مسائل درپیش ہیں، سرکاری اور نجی سٹیشنوں کے لیے برابر کے مواقعوں کی مشکل بھی درپیش ہے۔انھوں نے پاکستانی فوج کی جانب سے چلائے جانے والے ایف ایم سٹیشنوں کا بھی ذکر کیا جو ان کے بقول کسی پاکستانی ادارے کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے ہیں۔ایف ایم 103 کے سربراہ عمران باجوہ نے کہا کہ جب انھوں نے ادھار لے کر اپنا ریڈیو شروع کیا تو بی بی سی کی خبریں چلانے پر انھیں غدار کہا گیا لیکن انھیں اس بات کی خوشی ہے کہ بی بی سی اور پیمرا اکٹھے اس شعبے کی ترقی کے لیے سرگرم ہیں۔اکثر شرکا کا اس بات پر اتفاق تھا کہ پاکستان میں ریڈیو کا مستقبل تابناک ہے بس اگر کمی ہے تو اچھے معنی خیز اور تخلیقی مواد کی جس سے ریڈیو اپنے روٹھے ہوئے سامعین کو واپس لا سکتا ہے۔



کالم



کاش کوئی بتا دے


مارس چاکلیٹ بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی…

کان پکڑ لیں

ڈاکٹر عبدالقدیر سے میری آخری ملاقات فلائیٹ میں…

ساڑھے چار سیکنڈ

نیاز احمد کی عمر صرف 36 برس تھی‘ اردو کے استاد…

وائے می ناٹ(پارٹ ٹو)

دنیا میں اوسط عمر میں اضافہ ہو چکا ہے‘ ہمیں اب…

وائے می ناٹ

میرا پہلا تاثر حیرت تھی بلکہ رکیے میں صدمے میں…

حکمت کی واپسی

بیسویں صدی تک گھوڑے قوموں‘ معاشروں اور قبیلوں…

سٹوری آف لائف

یہ پیٹر کی کہانی ہے‘ مشرقی یورپ کے پیٹر کی کہانی۔…

ٹیسٹنگ گرائونڈ

چنگیز خان اس تکنیک کا موجد تھا‘ وہ اسے سلامی…

کرپٹوکرنسی

وہ امیر آدمی تھا بلکہ بہت ہی امیر آدمی تھا‘ اللہ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

دیوار چین سے

میں دیوار چین پر دوسری مرتبہ آیا‘ 2006ء میں پہلی…