اسلام آباد (اے این این ) قومی احتساب بیورو(نیب)کی جانب سے کبھی ایسے عناصر کے خلاف کارروائی سامنے نہیں آئی، جو اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے غیر سنجیدہ درخواستیں دے کر کسی بھی فرد کی کردار کشی کا باعث بنتے ہیں، جس سے اس قسم کے عناصر کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔نیب کے ہر چیئرمین کی جانب سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ غیر سنجیدہ شکایات کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی ۔
لیکن اس کے باوجود آج تک ایسا کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا جو اس قسم کے اقدامات کی روک تھام کرے ۔نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق ایسے عناصر کے خلاف تادیبی کارروائی کے بجائے نیب ارادی اور غیر ارادی طور پر اپنے آپ کو استعمال کرنے کو موقع فراہم کرتا ہے۔واضح رہے کہ 2 ماہ قبل موجودہ چیئرمین نیب جسٹس(ر)جاوید اقبال کی زیر قیادت بیورو نے اعلان کیا تھا کہ وہ صرف ثبوت پر مبنی اور کمیشن کی جانب سے تجویز کردہ بدعنوانی کے خلاف درخواستوں پر غور کرے گا۔اس حوالے سے ذرائع نے بتایاکہ نیب کی تاریخ میں آج تک کسی ملزم کو نقصان پہنچانے کی غرض سے دائر کی گئی شکایت پر درخواست گزار کے خلاف کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی جس سے اس قسم کے عناصر کو موقع ملا کہ وہ ذاتی عناد کے باعث اپنے مخالفین کو نقصان پہنچانے کے لیے نیب میں درخواست دائر کردیں۔ان کا کہنا تھا کہ نیب بغیر کسی تصدیق کے ہر قسم کی درخواستوں پر غور کررہا ہے جس کی وجہ سے ان درخواستوں پر ہونے والے میڈیا ٹرائل کے سبب چیف جسٹس آف پاکستان بھی برہم ہوئے۔خیال رہے کہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے حال ہی میں مبینہ طور پر نیب کی جانب سے مقدمات کا سامنا کرنے والے افراد کی تفصیلات میڈیا کو فراہم کرنے کا نوٹس لیا تھا جس سے ان کی کردار کشی کی کوشش کی گئی۔ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ بیورو کو موصول ہونے والی کچھ درخواستیں ایسی ہیں جو کئی سالوں بعد غلط ثابت ہوئیں اور اس دوران نامزد فرد کی کردار کشی کا مقصد پورا ہوچکا ہوتا ہے۔
نیب چیئرمین کی جانب سے غیر سنجیدہ شکایات کے خلاف کارروائی کے لیے کوئی موثر میکانزم بنانے سے ناکامی پر نیب ترجمان نوازش علی عاصم نے رابطہ کرنے پر کسی قسم کا موقف دینے سے گریز کیا۔نیب کی معمول کی کارروائی کے مطابق درخواستوں کے مواد کی حقیقت کو ابتدائی تحقیقات کے تحت جانچا جاتا ہے تاکہ اس سے نامزد ملزم کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچے لیکن دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ اس پر عملدرآمد نہیں کیا جاتا۔خیال رہے کہ کسی درخواست کی تصدیق کے لیے 2 ماہ کا عرصہ درکار ہوتا ہے جس میں اس کی حقیقت پر مبنی ہونے اور تفتیش کے میعار پر پورا اترنے کا جائزہ لیا جاتا ہے جس کے بعد 4 ماہ میں انکوائری کر کے اس پر ریفرنس درج کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔