مظفرآباد/اسلام آباد(این این آئی)پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ جب بھی بھٹو شہید کشمیر کی کال دیتے تھے تو نہ صرف کشمیر بند ہوتا تھا بلکہ پورے کا پورا جموں کشمیر بھی بند ہوتا تھا۔ وہ بھٹو شہید جن کی شہادت پر نہ صرف پاکستان میں لوگوں نے احتجاج کئے، نہ صرف لوگوں نے اپنی جانیں دیں مگرسری نگر کی عوام نے بھٹو شہید کی شہادت پر احتجاج بھی کئے اور شہادت بھی کی قبول کئے۔
وہ اس لئے کہ بھٹو شہید اصل معنی میں کشمیر کا سفیر تھے وہ پاکستان کے لیڈر تھے مگر وہ پورے کے پورے کشمیر کے لیڈر تھے اور پاکستان پیپلزپارٹی ہمیشہ کشمیر کی محافظ رہی ہے آج پھر پیپلزپارٹی کشمیریوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہے اس لئے کشمیر پر جو حملہ اب کیا گیا ہے وہ کزشتہ 72سالوں میں بھی نہیں کیا گیا۔ یوں تو کشمیر میں جدوجہد پہلے دن سے جاری ہے کشمیر میں شہادتیں پہلے دن سے ہو رہی ہیں پہلے دن سے نوجوانوں کے چہرے اور آنکھیں مسخ کی جا رہی ہیں، گولیوں سے جسم زخمی کئے جا رہے ہیں، خواتین سے ذیادتیاں تو پہلے دن سے ہو رہی ہیں۔ کشمیر پر قبضہ کرنے کی کوشش تو 72سالوں سے کی جارہی ہے۔ مگر پہلی مرتبہ کشمیر کے وجود کو کاٹ کر کئی حصوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اسپیشل سٹیٹس ختم کرکے کشمیر کے مسلمانوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کشمیر پچھلے 117 دنوں سے ایک کھلی جیل بنا ہوا ہے، دوکانیں بندہیں اسکولز بندہیں مریضوں کے پاس دوائیا ں نہیں، انٹرنیٹ اور فون بھی بند ہیں جرنلیسٹ اور انٹرنیشل آرگنائزیشن کے داخلے پر پابندی ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی خاموش نہیں رہ سکتی، کشمیری خاموش نہیں رہ سکتے۔ ساتھیوں ہم پہلے دن سے کہہ رہے ہیں کہ مودی کو سمجھو مودی کو پہچانو، یہ ایک انتہاپسند ہے انتہاپسند سوچ رکھنے والا ہے۔ یہ نہ صرف بھارت کے لوگوں کے لئے عذاب بنے گا بلکہ پورے خطے کو آگ اور خون میں دھکیل دے اس لئے مودی سے بات نہیں ہو سکتی مودی کا چہرہ میں نے بے نقاب کیا تھا
جب میں یہاں آیا تھا الیکشن کے دور میں یہاں آیا تھا میں نے کہا تھا کہ مودی کے یار کو ایک دھکا اور دو مجھے کہا گیا کہ میں امن نہیں چاہتا میں امن چاہتا ہوں پاکستان پیپلزپارٹی امن چاہتی ہے مگر کشمیر کی قیمت پر نہیں۔ ہمارا سلکٹیڈ مودی کے جیتنے کی دعا مانگتا تھا اس سے اس کی ذہنی پسماندگی کا اندازہ لگاں کہتا تھا کہ مودی جیتے گا تو کشمیر کا مسئلہ حل ہوگا۔ آج کہتا ہے کہ یہ مودی یہ آرایس ایس کا کارندہ ہے یہ ہٹلر کا پیروکار ہے۔ میں پوچھتا ہوں کہ کیا مودی کل آرایس ایس کا کارندہ نہیں تھا؟
جب تم اس کے الیکشن جیتنے کی دعائیں مانگتے پھرتے تھے کیا مودی اس وقت ہٹلر کا پیروکار نہیں تھا جب اس کو مس کال مار رہے تھے۔ پاکستان پیپلزپارٹی وہ واحد جماعت ہے جس نے مودی کو پہلے دن سے پہچانا۔ مودی پوری دنیا کے امن کے لئے خطرہ ہے مودی پورے خطے کے امن کے لئے خطرہ ہے، مودی پاکستان اور بھارت کے امن کے لئے خطرہ ہے، مودی خود بھارت کے وجود کے لئے خطرہ، مودی کی لگائی ہوئی نفرت، تعصب اور جہالت کی فصلیں انڈیا کی کئی نسلیں کاٹیں گی۔ ہمارا سلیکٹڈ کہتا ہے کہ میں کشمیر کا سفیر ہوں،
یہ کیسا سفیر ہے کہ کشمیر میں بحران کے بعد جس نے کسی ایک ملک کا دورہ نہیں، جس نے کسی ایک ملک میں ایک وفد نہیں بھیجا جو کسی عالمی فورم پر کشمیر کے حق میں کوئی قرارداد پیش بھی نہ کر سکتا۔ یہ کیسا سفیر ہے جو کشمیر میں جمہوریت کی بات کرتا ہے اور پاکستان میں جمہوریت کا جنازہ نکالتا ہے، جو کشمیر میں میڈیا کی آزادی کی بات کرتا ہے ارو پاکستان میں صحافت کا گلا گھونٹ رہا ہے۔ جو کشمیر میں سیاسی قیدیوں کی بات کرتا ہے اور یہاں سیاسی مخالفین کو جیلوں میں بند کرتا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے کہا کہ
جہاں کشمیریوں کا پسینہ گرے گا وہاں ہمارا خون گرے گا۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو نے ایک ہزار سال جنگ کا اعلان کیا تھا اور اب اگر ہمارا سلیکٹڈکہتا ہے کہ میں کیا کروں اور اگر آج اب ہمارا وزیراعظم کشمیر کا سودا کرنے کے لئے تیار ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم پیچھے ہٹنے کو تیار ہیں اس یہ مطلب نہیں کہ ہم اسے قبول کرنے کو تیار ہیں۔ میں آپ کو یقین دلانے آیا ہوں کہ کشمیر کا مقدمہ ہم لڑیں گے آپ لڑیں گے پاکستان پیپلزپارٹی لڑے گی۔ ہم پوری دنیا کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ کشمیر پر سودا ہمیں نہ منظور ہے۔ ہم رائے شماری کے موقف سے نہ کبھی پیچھے ہٹے ہیں،
نہ کبھی پیجھے ہٹیں گی، ہمارا نعرہ سب پے بھاری رائے شماری، ہمارا نعرہ سب پے بھاری رائے شماری رائے شماری۔ ساتھیو پاکستان پیپلزپارٹی کا قیام چار اصولوں پر ہوا تھا کہ اسلام ہمارا دین ہے، جمہوریت ہماری سیاست ہے، سوشلزم ہمار معیشت اور طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔ اسلام ہمار دین ہے اور ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ہم نے کبھی دین کو کاروبار نہیں بنایا اور نہ ہی ہم نے دین کو سیاست کے لئے استعمال کیا۔ ہماری سیاست کی بنیاد جمہوریت ہے۔ آزادی کے 26سال بعد ہم نے پاکستان کو متفقہ اسلامی جمہوری وفاقی آئین دے کر اقتدار عوام کو منتقل کیا۔ سانحہ مشرقی پاکستان
سے لے کر آج تک یہ آئین پاکستان کی بقاکی ضمانت ہے افسوس مختلف آمروں نے اس آئین کا حلیہ بگاڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد جیسے ہی ہمیں حکومت ملی ہم نے اپنی حکومت کے پہلے سال میں اٹھارہویں ترمیم کرکے اس ملک کی بنیادیوں کو مضبوط کیا صوبوں کو وہ حقوق دئیے جو وہ سالوں سال سے مانگ رہے تھے این ایف سی ایوارڈ دیا اور آئین کو آمریت کا اور آمروں کے کالے قانون سے پاک کیا نہ صرف یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار تمام سازشوں کے باوجود یہ اقتدار ایک جمہوری سے جمہوری سے منتقل کئے لیکن ہم نے اس کے بعد کیا دیکھا
ہم نے دیکھا کہ وہ روایت جس کو مضبوط ہونے میں صدیا ں لگتی ہیں ایک سلیکٹڈ کے ذریعے اس کو پامال کیا گیا۔ ایک دھاندلی زدہ الیکشن کے ذریعے اس کو اقتدار تھاما گیا اس کے ذمے یہ مشن لگایا کہ وہ تمام اقدامات جو آمریت کی لمبی رات کے بعد ہم نے اس ملک کو وفاق کو مضبوط کرنے کے لئے کئے تھے ان کو رول بیک کرے۔ آج وہ اٹھارہویں ترمیم پر حملہ آور ہے این ایف سی پر حملہ کرنا چاہتے ہیں صوبوں سے ان کے حقوق چھیننا چاہتے ہیں لیکن یادرکھو کہ ہم آج بیانیے پر بہت محنت کرکے پہنچے ہیں۔ اس نظام کے لئے اس جمہوریت کیلئے ہم نے پھانسیاں قبول کئے ہیں کوڑے کھائے ہیں جیلیں برداشت کئے جھوٹے مقدمے برداشت کئے ہیں
ہم تمہیں ایسا نہیں کرنے دیں گے۔ ہماری قربانیاں اس لئے نہیں تھیں کہ آج نہ عوام آزاد، نہ صحافت آزاداور نہ ہی سیاست آزاد، یہ کس قسم کی جمہوریت ہے کہ پارلیمنٹ کو تالا لگ چکا ہے، ایوان بند ہے اور صدر ہاس ایک آرڈیننس فیکٹری میں تبدیل کر چکا ہے۔ یہ کونسی جمہوریت میں ہوتا ہے کہ وہ ایوان جہاں پر عوام کے مسائل حل اور قانون سازی کی جاتی ہے۔ وہاں سے وزیراعظم غائب اور وزراصرف گالی دیتے ہیں ااپ خود بتائیں کہ پچھلے 15مہینوں میں عوام کی فلاح کے لئے ان کی بہتری کے لئے کتنی قانون سازی کی گئی۔ یہ کس قسم کی جمہوریت ہے کہ میڈیا پر دہشتگردوں کے انٹرویو تو چل سکتے ہیں مگر سابق صدر زرداری اور وزیراعظم آزاد کشمیر کے
نہیں۔ یہ آمریت میں ہوتا ہے جمہوریت میں نہیں۔ ساتھیو آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ جب اقتدار غیرجمہوری لوگوں کو دھاندلی کے ذریعے دیا جاتا ہے تو کیا ہوتا ہے اس کٹھ پتلی اور سلیکٹڈ کے بارے میں ہمیں تو پتہ تھا یہ نااہل ہے یہ نالائق اور اب عوام بھی اس نالائق کا شکار ہوچکی ہے۔ معیشت ناکام، فارن پالیسی ناکام اور اس کی سیاست ناکام مگر یقین جانیں یہ نہیں پتہ تھا کہ اتنا نالائق ہے، اتنا نااہل ہے ارے سلیکٹڈتیرا ایک ہی کام تھا اور وہ بھی نہیں کر سکے۔ یہ تو ان کی پوری کی پوری حکومت ان کی پوری کی پوری جماعت ان کے پورے کے پورے وزراان کے پورے کے پورے وکلاصدر وزیراعظم کے سمیت تین مہینوں میں ایک نوٹیفکیشن نہیں بنا سکے۔ بقول چیف جسٹس آف پاکستان
آپ نے ہمارے ملک کے سپہ سالر کو ایک شٹل کاک بنا دیا اب یہ معاملہ پارلیمان میں آئے گا اب دیکھنا یہ ہے کہ جن سے ایک نوٹیفکیشن نہیں بن سکا جنہوں نے ایک سال میں ایک قانون پاس نہیں کر سکے وہ اب کیسے پارلیمان میں کنسنز پیدا کریں گے۔ اتنی اہم قانون سازی کروانے کے لئے آئین میں ترمیم لانے کے لئے اور وہ بھی چھ مہینے کے اندر ہی اندر۔ ساتھیو پاکستان پیپلزپارٹی کے اصول ہیں ہماری معیشت مساوات پر مبنی ہے جہاں وسائل کی منصفانہ تقسیم ہو۔ ہم نے ہمیشہ جدوجہد کی کہ عوام اپنے فیصلوں میں خود مختار ہوں اور یہ وہ چار اصول ہیں جن کو حاصل کرنے کے لئے جس کی تکمیل کے لئے پاکستان پیپلزپارٹی کے ہزاروں کارکنوں اور بی بی شہید نے قربانیاں دیں۔ اور آج اس دور
میں سیاست کا محور بدل چکا ہے اور آج سیاست کا محور نظریات نہیں بلکہ سستی شہرت حاصل کرنے کے لئے مخالفین پر کیچڑ اچھالنا ہے۔ سیاست کا محور خلق خدا کی فلاح نہیں بلکہ بغیر کسی جامع پالیسی کے ان کو سبز باغ دکھانا ہے۔ حکومت حاصل کرنے کے لئے عوام جو طاقت کا سرچشمہ ہے ان کی بجائے ایمپائر کو اہمیت دینا ہے آج میں چاہتا ہوں کہ آپ سے وہ بات کروں جو بھٹو شہید نے پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھتے ہوئے آپ سے کی۔ میں چاہتاہوں کہ ایک دفعہ پھر اس ملک کے نوجوانوں، کسانوں مزدوروں اور پسے ہوئے طبقات کے سامنے آج کے حالات کے تناظر میں ان رہنما اصولوں کو بیان کروں جیسے شہید ذوالفقار علی بھٹو نے کیا تھا۔ آج بھی اگر ہم نے حقیقی معنوں میں اپنے
معاشی مساوات کو قائم کرنا ہے تو ہمیں سوشول ڈیموکریسی کے اصولوں کو اپنانا ہوگا اس ملک کو فلاحی ریاست میں بدلنا ہوگا، مفت تعلیم، صحت اور آگے بڑھنے کے برابری کے مواقع ہر شہیر کو دینا ہوں گے ہر طالب علم کو مفت اور معیاری تعلیم دینا ہوگی تعلیم حاصل کرنے کے بعد روزگار کے مواقع دینے ہوں گے ہر شہری کو مفت اور معیاری علاج کا حق دینا ہوگا۔ یہ سہولت نہیں یہ کنسیشن نہیں بلکہ کہ ہر شہری کا حق ہونا چاہیے۔ ساتھیو آج جس دور سے ہم گزر رہے ہیں اگر ہم نے جلد وہ فیصلے نہ کئے جو ہماری معاشی ترقی کو ممکن بنا سکے اگر ہم لوگوں کو عزت سے زندگی گزارنے کا موقع نہ دے سکے اور اگر ہم روزگار اور کاروبار کو ترقی نہ دے سکے تو شاید ہم کبھی آئی ایم ایف سے آزاد نہیں ہو سکیں گے
یونہی ہماری معیشت غیروں کے قبضے میں رہے گی اور برونی طاقتیں ہمیشہ معاشی کمزوری کو اپنے مفادات کو بڑھانے کے لئے استعمال کرتی رہے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیں اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے لئے ٹیکس کا نظام قائم کرنا ہوگا لیکن ایسا نہیں اس طرح نہیں جیسے یہ حکومت کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ آپ ڈرا دھمکا کر ان لوگوں کو جن کو حکومت پر اعتماد نہیں جن کو یہ بھروسہ نہیں کہ ان کا پیسہ کس مقصد کے لئے استعمال ہوگا۔ تاجروں اور کاروباری طبقے کو چور اور ڈاکو کہہ کر ان سے ٹیکس نہیں لیا جا سکتا۔ اگر آپ نے ٹیکس بیس کو بڑھانا ہے تو آپ کو ایک پازیٹو اور کنڈیکٹو انوائرنمٹ کرییٹ کرنی ہوگی۔ ہم نے یہ سندھ میں کر کے دکھایا۔ سندھ میں سیلزٹیکس کو باقی صوبوں
سے کم رکھ کے ہم نے زیادہ ٹیکس وصول کئے ہیں۔ ایف آئی اے اور نیب کی دھمکیوں کے بغیر ٹیکس بیس کو بڑھایا ہے اور بجائے اسے کہ آپ ساری کی ساری توجہ عام آدمی پے عام عوام پے عام تاجر پے کاروباری طبقے پر ہو۔ اگر آپ واقعی دو نہیں ایک پاکستان چاہتے ہو تو آپ کو یہ بھی سوچنا ہوگا کہ آپ بڑے بڑے اداروں کو جن کا کام کاروبار کرنا ہی نہیں جو ہماری معیشت میں کسی بھی کاروباری گروپ کے مقابلے میں سب سے زیادہ طاقتور اور بڑے ہیں آپ کب تک ان کو ٹیکس نیٹ سے باہر رکھیں گے۔سب کو مل کر اس ملک کی ترقی میں حصہ ڈالنا ہوگا اور کوئی مقدس گائے نہیں ہو سکتے۔ ہمیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ آخر ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود ہماری ذراعت کیوں زوال پذیر ہے آج تقریبا ہر بڑی فصل
کی پیداوار میں کمی کیوں آرہی ہے۔ اس سال گندم اور مکئی کی پیداوار 24فیصد کم کپاس کی پیداوار 30فیصد کم کیوں ہوگئی ہے کیا کسان کی خوشحالی موجودہ حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ یہ صرف پاکستان پیپلزپارٹی کے دور میں ممکن ہوا کہ گندم خریدنے والا ملک گندم بیچنے والا ملک بن گیا۔ یہ اس لئے کہ ہم نے گندم کی امدادی قیمت ساڑھے چار سو روپے من سے بڑھا کر 1200روپے من کیا ہمیں زراعت کو سہارا دینے کے لئے باقی فصلوں کی امدادی قیمت بھی مقرر رکرنی ہوگی کھاد اور زرعی دوائیوں کو سستا کرنا ہوگا اور نہ صرف یہ کہ بلکہ ویلیو ایڈیشن کرکے اپنا ایکسپورٹ کو بڑھاناہوگا۔ ساتھیو یہ حکومت امیروں کو ریلیف دے رہی اور عوام پر بوجھ ڈال رہی ہے ہر طبقہ کا معاشی قتل ہو رہا ہے یہ کس قسم کا پاکستان ہے کہ
جہاں کسانوں سے سبسڈی چھینی جا رہیے بزرگوں کی پنشن میں اضافہ نہیں ہوتا کم سے کم اجرت میں اضافہ نہیں ہوتا مزدوروں کو مہنگائی کی سونامی ڈبویا جاتا ہے نیا روزگار دینے کی بجائے روزگار چھینا جاتا ہے اور وہ چور ڈاکو لٹیرے جن کے خلاف بیس سال خان شور مچاتا تھا ان ارب پتیوں کے لئے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم آتی ہے مگر کسانوں مزدورو چھوٹے تاجروں چھوٹے دکانداروں کے لئے کوئی ایمنسٹی نہیں۔ ارب پتی بینکرز ارب پتی اسٹاک پروکرز کے لئے اربوں روپے کا بیل آٹ لاتی ہے مگر ہمارا طلبا کے لئے ہمارے نوجوانوں کے لئے ہمارے بزرگوں کے لئے کوئی بیل آٹ نہیں۔ اور تو اور ہمیں ڈھٹائی سے کہا جاتا ہے کہ معیشت صحیح سمت پر چل رہی ہے ہیلی کاپٹر 50روپے سے چلتا ہے ٹماٹر تو 17روپے بکتا ہے اور سلائی مشین سے ارب پتی بنتے ہیں یہ تو صرف اور صرف عمران کے نئے پاکستان میں ہو سکتا ہے۔ جہاں پر ہم ملک کو چھوڑ کر گئے اس کو بہتر بنانا تو دور کی بات یہ تو ان منصوبوں کو بھی تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں جو ہمارے ملک کی لائف لائن ہے جیسا کہ سی پیک صدر زرداری کا سی پیک کا ایک وژن تو یہ تھا کہ بجائے اس کے کہ
چین جو اربوں ڈالر کی اجناس کو امپورٹ کرتا ہے وہ پاکستان سے ہماری اجناس کو خریدے مگر آج اس نالائق حکومت نے تو سی پیک کو بھی متنازعہ بنا دیا ہے۔ عمران خان کان کھول کر سن لو بھٹو شہید نے چین کے ساتھ تاریخی تعلقات کی بنیادرکھی۔ بھٹو شہید نے یہ تعلقات رکھے اور بی بی شہید نے اور صدر زرداری نے یہ رشتے مزید مضبوط کئے ہم کسی صورت میں سی پیک کو متنازعہ نہیں بننے دیں گے۔ گوادر پورٹ چین کے حوالے کرکے صدر زرداری نے اس منصوبے کی بنیاد رکھی اور ہم اس کا تحفظ کرنا بھی جانتے ہم تمہیں چائنہ کے ساتھ سی پیک پر یو ٹرن نہیں لینے دیں گے۔ ساتھیوجب سے یہ حکومت آئی ہے کوئی ایسا شعبہ نہیں جو زوال پذیر نہ ہو معیشت کا برا حال، غریب اور سفید پوش طبقہ پریشان، کسان اور مزدور بدحال اورتو اور ہماری فارن پالیسی کا یہ حال کہ کشمیر جیسے مسئلے پر کوئی دنیا میں پاکستان کی آواز میں آوازملانے کے لئے تیار نہیں۔ پاکستان میں کوئی ایسا شخص نہیں جو اس کی کارکردگی پر متفق ہو اور ہمیں اب اس سے جان چھڑانی ہوگی۔ سلیکٹرز کو بھی سوچنا ہوگا کہ اب پاکستان میں مزید تجربوں کا متحمل نہیں ہو سکتا اور ان کا یہ تجربہ بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔ عوام کو ان کے حق میں حاکمیت لٹانا ہوگی اور آمریت کو گھر بھیجنا پڑے گا۔