بدھ‬‮ ، 09 اکتوبر‬‮ 2024 

آئندہ کسی بھی مقدمے میں اگر کسی تفتیشی افسر نے یہ کام کیاتو اسے بھی اس جرم میں برابر کا ذمہ دار ٹھہرایا جائیگا‘ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے بڑا اعلان کردیا

datetime 23  ‬‮نومبر‬‮  2019
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لاہور(این این آئی)چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ عدلیہ کی آزادی جتنی اہمیت کی حامل ہے اتنی ہی اہمیت پولیس کی آزادی کی ہے اور جرائم کنٹرول کرنے کیلئے محکمہ پولیس کا آزاد ہونا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ عدلیہ کی آزادی ضروری ہے،بطور چیف جسٹس میری ترجیح رہی ہے کہ عدالت میں پیش ہونے والے پولیس افسران واہلکاروں کی عزت نفس مجروح نہ ہواور میں یہاں یہ بات بتانا چاہتاہوں

جوکہ شاید پہلے کسی کے علم میں نہیں کہ کچھ عرصہ قبل دوران سماعت پولیس افسر کے ساتھ غیر مناسب رویہ اختیار کرنے پر ایک ہائی کورٹ کے جج کا کیس سپریم جوڈیشل کونسل میں ٹرائل ہوا اور جج کو سزا بھی دی گئی،جب کسی بھی واقعہ پر انتظامیہ اور متعلقہ افسران نہ صرف فوری طورپر متحرک ہوں بلکہ اداروں کے سربراہان سمیت دیگر متعلقہ افسران کی طرف سے فوری ایکشن اور کاروائی کا آغاز ہوجاتا ہے تو پھر سوموٹو کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے سنٹرل پولیس آفس میں خطاب کرتے ہوئے کیا۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ سابقہ چیف جسٹس کی طرف سے بنائی گئی پولیس ریفارمز کمیٹی کے کام کو بطور جج اور وکیل اپنے ذاتی تجربہ کی روشنی میں آگے بڑھایا ہے اور اس کیلئے تمام صوبوں کے انسپکٹرز جنرل کا بھرپور تعاون حاصل رہا ہے جس کے لئے انکے شکر گزار ہیں۔میں جوڈیشل ایکٹوازم کا قائل نہیں کیونکہ جب کسی بھی واقعہ پر انتظامیہ اور متعلقہ افسران نہ صرف فوری طورپر متحرک ہوں بلکہ اداروں کے سربراہان سمیت دیگر متعلقہ افسران کی طرف سے فوری ایکشن اور کاروائی کا آغاز ہوجاتا ہے تو پھر سوموٹو کی ضرورت ہی نہیں رہتی بلکہ ایسے موقعوں پر سوموٹو نوٹس اداروں کی کاروائیوں کو متاثرکرتا ہے۔انصاف کی فراہمی کیلئے تفتیشی افسران کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے یہ انکی ذمہ داری ہے کہ وہ قانون کے مطابق طے کی گئی مدت میں چالان عدالت میں پیش کریں

اور جھوٹی گواہی کو کسی ریکارڈ کا حصہ نہ بنائیں اور جھوٹی گواہی کی ہر سطح پر حوصلہ شکنی کی جائے۔ عدالت نے جھوٹی گواہی کے حوالے سے واضح کر دیا ہے کہ یہ کسی صوررت قابل قبول نہیں اوراب تک جھوٹی گواہی کی بنیاد پر 15جھوٹے گواہان کے خلاف کاروائی کی گئی ہے اور آئندہ کسی بھی مقدمے میں اگر کسی تفتیشی افسر نے جھوٹے گواہ پیش کئے تو اسے بھی اس جرم میں برابر کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔ انہوں نے مزیدکہاکہ

اگر سچا گواہ کمزور ہو یا اس میں گواہی دینے کی ہمت نہیں توکیا اس کی جگہ جھوٹے گواہ اور جھوٹ کی اجازت دے دی جائے جس کی ہمارے مذہب میں بھی سختی سے ممانعت ہے۔آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ ہمارا کام صرف انصاف کرنا ہی نہیں بلکہ قانون کے مطابق انصاف کرنا ہے اور جھوٹی گواہی بذات خود ایک جرم ہے لہذا ایک جرم کو ثابت کرنے کیلئے مزید دس جرائم کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ انہوں نے مزیدکہاکہ تفتیشی افسر کا کام مقدمے

کے حقائق تک پہنچنا ہے نہ کہ مدعی کے موقف یعنی ایف آئی آر کو درست ثابت کرنا ہے، مقدمے کی حقیقت اور سچائی کی تہہ تک پہنچنا اور عدالت کو حقائق سے آگاہ کرنا ہی تفتیشی افسر کا اصل کام ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ عدلیہ سے مقدمات کا بوجھ کم کرنے اورایف آئی آر کے فور ی اندراج کے لیے ہر ضلع میں ایس پی کمپلینٹس تعینات کئے تھے جس کے خاطر خواہ نتائج سامنے آئے ہیں ایس پی کمپلینٹس نے تقریبا ایک سال سے کم

عرصے میں ایک لاکھ بیس ہزار شہریوں کی شکایات سنیں جن میں سے 95فیصد شہریوں کی شکایات پر کاروائی عمل میں آئی یا وہ ایف آئی آر کے اندراج سے قبل ہی مطمئن ہوگئے جس سے عدالتوں پر بھی مقدمات کے بوجھ میں واضح کمی آئی ہے اور اس عرصہ کے دوران ہائی کورٹس میں ایف آئی آرکے اندراج کی رٹ پٹیشنز میں 15فیصد جبکہ ضلعی عدالتوں میں 30فیصد کمی آئی ہے جو کہ یقینا قابل تعریف نتیجہ ہے جس پر محکمہ پولیس داو د تحسین

کا مستحق ہے۔ انہوں نے مزیدکہاکہ نظام تفتیش کی خامیوں کو تلاش کرنے اور انہیں دور کرنے کیلئے عدلیہ کے حکم پر قائم کی گئی ڈسٹرکٹ اسیسمنٹ کمیٹیز ایسے کیسز جن میں ملزمان کو ضمانتیں مل گئیں یا وہ بری ہوگئے ہوں کا جائزہ لینے کے بعد اپنی سفارشات مرتب کریں کہ تفتیشی نظام کی کن خامیوں کے باعث ملزمان کو ضمانتیں مل گئیں یا وہ بری ہوگئے اور یہ سفارشات تفتیشی افسران سے شئیر کی جائیں تاکہ وہ اپنی یہ غلطیاں دوبارہ نہ

دہرائیں۔ ان کمیٹیوں کی سفارشات نہ صرف تفتیشی نظام اور تفتیشی افسران کیلئے انتہائی سود مند ہونگی بلکہ تفتیشی افسران کے اپنی غلطیوں پر قابو پاجانے سے نہ صرف جرائم پیشہ افراد سزاسے بچ نہ سکیں گے جس سے جرائم کی شرح میں بھی واضح کمی آئے گی۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ یہ بات میرے لئے انتہائی قابل مسرت ہے کہ ملک میں فوری انصاف کیلئے بنائی گئی ماڈل کورٹس کے قیام سے قتل اور منشیات جیسے سنگین مقدمات کو

نمٹانے میں بہت مدد ملی ہے خاص کر محکمہ پولیس کی جانب سے مقرر کئے گئے پولیس فوکل پرسنز کی جانب سے عدالتوں میں گواہوں کی بروقت حاضری کو یقینی بنانے سے ان مقدمات کو جلد نمٹانے میں بہت مددملی جس پر تمام انسپکٹرز جنرل اور محکمہ پولیس تعریف کا مستحق ہے۔ ان عدالتوں نے189دنوں میں 24523مقدمات نمٹائے بلکہ عدلیہ کیلئے یہ بات نہایت اطمینان بخش ہے کہ پاکستان کے متعدد اضلاع میں قتل کا ایک مقدمہ بھی زیر التواء

نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ اسی طرح چیک ڈس آنر کے مقدمات میں کافی تاخیر نظر آتی رہے جس سے شہریوں کے مسائل اور پریشانیاں یقینا محتاج بیان نہیں تھیں جس پر عدلیہ نے ایسے مقدمات کو اپنی ترجیح بنایا تو گذشتہ کچھ عرصے میں ایسے مقدمات کے ٹرائلز کے ذریعے100کروڑ سے زائد کی رقم حقیقی مالکان کو واپس دلوائی گئی جو یقینا باعث اطمینان حقیقت ہے کیونکہ جب ملزم کو یہ پتہ ہوگا کہ مقدمے کا فیصلہ جلد ہوجائے گا تو پھر لوگ

جرم کرنے سے پہلے کئی مرتبہ سوچیں گے جس سے جرائم میں بھی واضح کمی ہوگی۔ چیف جسٹس نے مزیدکہاکہ سینئر افسران جونیئر افسران کی طرف سے ٹرانسفر پوسٹنگ کیلئے کسی بھی قسم کے بیرونی دباؤ کے استعمال پر ماتحت افسر کے خلاف سو ل سروس قانون کے مطابق مس کنڈکٹ کی کاروائی کو یقینی بنائیں اور سفار ش کرنے والا اگر کسی سرکاری عہدے پرفائز ہے تو اسکے خلاف شکایت ثبوت کے ساتھ نیب کو کیس بھجوایا جائے۔۔ان

خیالات کا اظہار انہوں نے آج سنٹرل پولیس آفس کے دورے کے موقع پر پولیس افسران سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔سنٹرل پولیس آفس آمد پر پولیس کے چاک و چوبند دستے نے چیف جسٹس آف پاکستان کو سلامی پیش کی جس کے بعد چیف جسٹس نے پولیس میوزیم کا دورہ کیا جہاں ڈی آئی جی لیگل جواد احمد ڈوگر نے انہیں پنجاب پولیس کی تاریخی ورثے اور ریکارڈ میں محفوظ نادر دستاویزات کے متعلق بریفنگ دی۔ ڈی آئی جی آئی ٹی ذوالفقار حمید نے

چیف جسٹس کو پنجاب پولیس کے آئی ٹی پراجیکٹس اور جدید پولیسنگ کے حوالے سے کئے گئے اقدامات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق پنجاب پولیس کے ورکنگ سسٹم کواپ گریڈ کیا گیا ہے جس سے پولیس کی پرفارمنس میں خاص طور پر بہتری آئی ہے۔ پولیس میوزیم کے دورے کے بعد چیف جسٹس نے پولیس افسران سے خطاب بھی کیا۔آئی جی پنجاب کیپٹن (ر) عارف نواز خان نے سنٹرل پولیس آفس آمد پر چیف

جسٹس آف پاکستان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکہ پنجاب پولیس شہریوں کو انصاف کی فراہمی اور زیر التوا کیسز کو جلد از جلد پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے عدالتو ں کو ہر ممکن معاونت فراہم کررہی ہے اور میں پنجاب پولیس کی جانب سے یہ یقین دلاتا ہوں کہ انصاف کی فراہمی کیلئے عدلیہ کے احکامات پرنہ صرف من و عن عمل درآمد جاری رہے گا بلکہ انصاف کی فراہمی کیلئے پولیس عدلیہ کے ساتھ تعاون اور اقدامات کو ہر سطح پر یقینی بنائے

گی۔ آئی جی پنجاب نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف کھوسہ، سینئر ترین جج سپریم کورٹ جسٹس گلزار احمد اور کنوینر پولیس ریفارمز کمیٹی افضل علی شگری کو پنجاب پولیس کی جانب سے یادگاری سووینئرز بھی پیش کئے۔ اس موقع پر سینئر جج جسٹس گلزا راحمد، سیکرٹری لاء اینڈ جسٹس کمیشن ڈاکٹر رحیم اعوان، کنوینر پولیس ریفارمز کمیٹی افضل علی شگری،

آئی جی پنجاب کیپٹن (ر) عارف نواز خان، آئی جی سندھ ڈاکٹر سید کلیم امام، آئی جی بلوچستان محسن حسن بٹ، آئی جی خیبر پختونخواہ نعیم خان، آئی جی اسلام آباد عامر ذوالفقار خان،آئی جی گلگت بلتستان ثنا ء اللہ عباسی سمیت پنجاب پولیس کے تمام ایڈیشنل آئی جیز، ڈی آئی جیز، آر پی اوز، سی پی اوزاور ڈی پی اوز سمیت دیگر افسران موجود تھے۔



کالم



ڈنگ ٹپائو


بارش ہوئی اور بارش کے تیسرے دن امیر تیمور کے ذاتی…

کوفتوں کی پلیٹ

اللہ تعالیٰ کا سسٹم مجھے آنٹی صغریٰ نے سمجھایا…

ہماری آنکھیں کب کھلیں گے

یہ دو مختلف واقعات ہیں لیکن یہ دونوں کہیں نہ کہیں…

ہرقیمت پر

اگرتلہ بھارت کی پہاڑی ریاست تری پورہ کا دارالحکومت…

خوشحالی کے چھ اصول

وارن بفٹ دنیا کے نامور سرمایہ کار ہیں‘ یہ امریکا…

واسے پور

آپ اگر دو فلمیں دیکھ لیں تو آپ کوپاکستان کے موجودہ…

امیدوں کے جال میں پھنسا عمران خان

ایک پریشان حال شخص کسی بزرگ کے پاس گیا اور اپنی…

حرام خوری کی سزا

تائیوان کی کمپنی گولڈ اپالو نے 1995ء میں پیجر کے…

مولانا یونیورسٹی آف پالیٹکس اینڈ مینجمنٹ

مولانا فضل الرحمن کے پاس اس وقت قومی اسمبلی میں…

ایس آئی ایف سی کے لیےہنی سنگھ کا میسج

ہنی سنگھ انڈیا کے مشہور پنجابی سنگر اور ریپر…

راشد نواز جیسی خلائی مخلوق

آپ اعجاز صاحب کی مثال لیں‘ یہ پیشے کے لحاظ سے…