ضمنی الیکشن ‘ پی پی، پی ٹی آئی اورن لیگ تینوں جماعتیں ہار گئیں

13  اکتوبر‬‮  2015

اسلام آباد (نیوز ڈیسک) لاہور کے ووٹروں نے عمران خان کی دھاندلی اور الزامات کی سیاست کو دفن کر دیا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کو یہ سوچنے پر بھی مجبور کر دیا ہے کہ لاہور میں اس قدر زبردست ترقیاتی کاموں کے باوجود ایسا کیا ہوا کہ وہ این اے 122 کی نشست بمشکل ہی جیت پائی اور صوبائی نشست پی پی 147 ہار بیٹھی۔ لیکن بیچاری پیپلز پارٹی اپنے مکمل زوال کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے اور مستقبل کو محفوظ بنانے کیلئے پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی طرف سے بہتری کے آثار دکھائی نہیں دے رہے حالانکہ کوئی وقت تھا کہ جب یہ جماعت ملک کی مقبول ترین سیاسی جماعت ہوا کرتی تھی۔جنگ رپورٹر انصار عباسی کے مطابق ضمنی الیکشن نے بلا شک و شبہ کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ عمران خان کی دھاندلی اور الزامات کی سیاست سے اختلاف رکھنے والوں کے پاکستان تحریک انصاف کے طعنوں، گالیوں اور گندی زبان سے بھرے الزامات بے بنیاد ہیں۔ نہ صرف عام انتخابات کے حوالے سے جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کی توثیق ہوئی بلکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان پر لگے داغ بھی دھل گئے۔ عمران خان کو سبق سیکھنے کو ملا ہے۔ انہوں نے تقریباً قیمتی ڈھائی سال کا عرصہ ضایع کیا ہے اور وہ یہ وقت خیبرپختونخوا کے ووٹ دینے والے عوام کی بھلائی و بہتری کیلئے استعمال کر سکتے تھے۔ کم از کم اب انہیں یہ تسلیم کر لینا چاہئے کہ انہیں گمراہ کیا گیا تھا کہ 2013ءکے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کا مینڈیٹ چوری کرکے نوا لیگ کو جتوایا گیا تھا۔ عمران خان کو چاہئے کہ وہ کھل کر ان تمام افراد سے معافی مانگیں جن کا مذاق اڑایا گیا، غلط الزامات عائد کیے گئے اور متعدد مرتبہ توہین کی گئی کیونکہ ان کے خلاف سیاسی اور قانونی طور پر عمران خان کے لگائے گئے الزامات ثابت نہیں ہو سکے۔ کوئی شک نہیں کہ پی ٹی آئی ملک میں دوسری بڑی سیاسی قوت بن کر سامنے آئی ہے۔ لیکن، اول نمبر پر آنے کیلئے اسے خیبرپختونخوا میں بطور حکمران جماعت اور مرکز اور پنجاب میں بطور حقیقی اپوزیشن پارٹی بن کر کارکردگی دکھانا ہوگی۔ سیاسی لحاظ سے یہ مختلف اوقات میں اور مختلف الیکشنز کے دوران ثابت ہو چکا ہے کہ پی ٹی آئی کی الزامات اور افراتفری کی سیاست کی وجہ سے زیادہ ووٹرز نہیں مل سکے بلکہ اس کے حامیوں کی تعداد کم ہوئی ہے۔ حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کیلئے لاہور الیکشن میں کامیابی پر انہیں خوش نہیں ہونا چاہئے بلکہ سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے کہ وہ بڑی مشکل سے این اے 122 کی نشست حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے، لیکن مقابلے میں وہ پی پی 147 کی صوبائی نشست ہار گئی۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو مسلم لیگ (ن) ہار چکی ہے۔ لاہور میں مسلم لیگ (ن) کی جانب سے اتنا خرچا کرنے کے باوجود ایسا کیوں ہوا؟ اتنی میٹرو بسوں اور اب میٹرو ٹرینوں، سڑکوں کے جال، فلائی اوور، رنگ روڈز، انڈر پاسز کا کیا ہوا؟ عمران خان کی الزامات کی سیاست سے آپ اختلاف کر سکتے ہیں لیکن وہ ادارہ سازی اور اصلاحات کے ایجنڈے کے حوالے سے جو کچھ کہتے ہیں اور خیبرپختونخوا میں کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ کم از کم مسلم لیگ (ن) کے معاملے میں مرکز اور پنجاب کی سطح پر نظر نہیں ا?تا۔ بڑے پروجیکٹس اہم ہیں لیکن یہ اصلاحات اور ادارہ سازی کے اقدامات ہیں جن کا عام شہری کی زندگی پر براہِ راست اثر مرتب ہوتا ہوتا ہے اور اس سے لوگوں کی زندگی پرسکون بنتی ہے۔ سرکاری محکموں میں خدمات کی فراہمی میں بہتری، اصلاحات اور سرکاری اداروں میں صلاحیتوں کو بڑھانے کیلئے سول بیوروکریسی کو سیاست سے پاک کرنا، جرائم کی روک تھام اور معصوم افراد کو ہراساں کرنے سے بچانے کیلئے پولیس نظام میں بہتری، غیر جانبدار اور خودمختار احتساب کا نظام لا کر کرپشن کی روک تھام کرنا، میرٹ کی بالادستی، فوجداری نظام قانون میں بہتری اور جدت لانا، انصاف کی فوری فراہمی کو یقینی بنانا وغیرہ ایسے اقدامات ہیں جن کی اشد ضرورت ہے تاکہ عام آدمی کی زندگی بہتر ہو سکے۔ مسلم لیگ (ن) اصلاحات کے معاملے میں آنکھیں چراتی ہے اور ادارہ سازی میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ میٹرو سے ووٹر کھنچ کر آتے تو ہیں لیکن سرکاری دفاتر میں ان کی تذلیل و توہین ہوتی ہے، انہیں رشوت دینا یا پھر اپنے قانون کام کروانے کیلئے بھی تعلقات ڈھونڈنا پڑتے ہیں، انہیں ملازمتیں نہیں ملتیں اور انہیں فوجداری نظام قانون میں کسی طرح کی بہتری نظر نہیں ا?تی تو وہ ناراض ہوتے ہیں اور انہیں دکھ ہوتا ہے۔ ترقیاتی کاموں کے معاملے میں خیبر پختو نخو ا پنجاب سے کہیں زیادہ پیچھے ہے لیکن صوبائی پولیس، اسکول کے اساتذہ اور ریونیو حکام کا تبدیل شدہ رویہ وہاں کے رہنے والے عوام کیلئے خوشی کا ذریعہ ہے۔ اگر مسلم لیگ (ن) نے شدت کے ساتھ محسوس کی جانے والی اصلاحات کے نفاذ میں مزید تاخیر کی تو اس کی مقبولیت بھی آہستہ آہستہ کم ہوتی جائے گی۔ بڑی سیاسی جماعتوں میں موجودہ صورتحال پیپلز پارٹی کیلئے انتہائی پریشان کن ہے اور وہ سندھ کے سوا پنجاب اور ملک کے دیگر حصوں میں تیزی سے مر رہی ہے۔ اور پیپلز پارٹی کی کشمکش یہ ہے کہ سندھ تک محدود ہونے کے باوجود وہ طرز حکمرانی بہتر بنانے کے معاملے میں سنجیدہ ہے اور نہ ہی کرپشن کی روک تھام کے معاملے میں۔ یہ بدقسمتی ہے کہ ا?صف زرداری کی سیاست کی وجہ سے بھاری نقصان اٹھانے کے باوجود، پیپلز پارٹی اب بھی بینظیر بھٹو کے شوہر کے رحم و کرم پر ہے۔ بلاول بھٹو کی کوئی حیثیت نہیں جبکہ اعتزاز احسن، خورشید شاہ، رضا ربانی، قمر زمان کائرہ جیسے لوگوں کی کوئی نہیں سنتا۔ یہ لوگ مایوسی کے ساتھ تاش کے پتوں کے گھر کی طرح پیپلز پارٹی کا زوال دیکھ رہے ہیں۔



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…