بدھ‬‮ ، 11 دسمبر‬‮ 2024 

آٹھ ماہ کے پاکستانی بچے نے بہن کی جان بچالی

datetime 17  دسمبر‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

بینگالورو(این این آئی)پاکستان سے تعلق رکھنے والا آٹھ ماہ کا شیر خوار بچہ رایان ہڈیوں کا گودا عطیہ کرکے اپنی بڑی بہن کی جان بچانے والا بھارت کا سب سے کم عمر ڈونر بن گیا۔آیان کی دو سالہ بہن زینیا انوکھی بیماری ہیمافاگوسائٹک لیمفوہسٹیوسائٹوسز (ایچ ایل ایچ) کا شکار تھی اور اس کا بون میرو غیر معمولی خلیات پیدا کر رہا تھا جو میرو کے نارمل خلیات کو نقصان پہنچا رہے تھے جس کا واحد علاج بون میرو ٹرانسپلانٹ تھا۔کامیاب آپریشن کے دو ماہ بعد اب دونوں بھائی بہن تیزی سے روبصحت ہورہے ہیں اور جلد اپنے والدین کے ہمراہ آبائی شہر ساہیوال آجائیں گے۔زینیا میں 11 ماہ کی عمر تک یہ بیماری ظاہر نہیں ہوئی تھی تاہم پھر اسے اچانک تیز بخار رہنے لگا جس کا علان اینٹی بائیوٹکس سے بھی ممکن نہ ہوا۔

تفصیلی طبی معائنے کے بعد زینیا کو ہڈیوں کے گودے کی بیماری لاحق ہونے کی تشخیص ہوئی جو اس کے لیے جان لیوا بھی ہوسکتی تھی۔زینیا میں پیدائش کے وقت سے جزوی برصیت کی بھی تشخیص ہوئی تھی۔زینیا کے والد ضیا اللہ نے بتایا کہ پہلے ہمیں بتایا گیا کہ اس مرض کا علاج ممکن نہیں جس کے بعد ہم ناامید ہوچکے تھے تاہم پھر ہمیں ایسے ہی ایک کیس کا نرایانا ہیلتھ سٹی (این ایچ سی) میں علاج کا پتہ چلا، ہم اس بات پر انتہائی خوش ہیں کہ ہم بھارت آکر اپنی بیٹی کا کامیاب علاج کراسکے جس پر ہم ڈاکٹروں کی پوری ٹیم کے شکر گزار ہیں ٗہسپتال داخل کرائے جانے کے بعد پہلے زینیا کی حالت کو مستحکم کیا گیا جس کے بعد مختلف ٹیسٹ کے ذریعے پتہ چلا کہ ان کے آٹھ ماہ کے بھائی کا ایچ ایل اے ان سے پوری طرح مماثلت رکھتا ہے تاہم رایان کی عمر انتہائی کم ہونے کے باعث ڈاکٹروں کیلئے یہ آپریشن انتہائی پیچیدہ تھا۔سینئر کنسلٹنٹ اور ہسپتال میں پیڈیاٹرک ہیماٹولوجی، آنکولوجی اینڈ بون میرو ٹرانسپلانٹ کے سربراہ ڈاکٹر سنیل بھٹ نے کہا کہ ڈونر کے اعتبار سے یہ کیس انتہائی مشکل تھا اور چونکہ ڈونر ایک 8 ماہ کا شیر خوار بچہ تھا اس لیے ہمیں آپریشن کو اس کی پیچیدگی کے باعث دو مراحل میں مکمل کرنا پڑا۔انہوں نے کہاکہ رایان نے بون میرو عطیہ کرکے ناصرف اپنی بہن کی جان بچائی بلکہ وہ بھارت کا سب سے کم عمر ڈونر بھی بن گیا ۔

این ایچ سی میں سینئر کنسلٹنٹ ہیماٹولوجسٹ اینڈ کلینیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر شَرت دامودر نے کہا کہ ہمیں اس بات کی خوشی ہے کہ ہم ناصرف پاکستان بلکہ دیگر ممالک سے آنے والے متعدد مریضوں کے علاج کی صلاحیت رکھتے ہیں۔زینیا کے والد ضیا اللہ کا کہنا تھا کہ پاکستان واپس پہنچ کر ہم ایک آن لائن پیج کے آغاز کا سوچ رہے ہیں جہاں ہم اپنی کہانی لوگوں سے شیئر کریں گے، تاکہ پاکستان میں لوگوں میں اس بیماری اور اس کے ممکنہ علاج سے متعلق آگاہی پیدا ہوسکے۔

موضوعات:



کالم



ہندوستان کا ایک پھیرا لگوا دیں


شاہ جہاں چوتھا مغل بادشاہ تھا‘ ہندوستان کی تاریخ…

شام میں کیا ہو رہا ہے؟

شام میں بشار الاسد کی حکومت کیوں ختم ہوئی؟ اس…

چھوٹی چھوٹی باتیں

اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین میں فلیٹس کا ایک ٹاور…

26نومبر کی رات کیا ہوا؟

جنڈولہ ضلع ٹانک کی تحصیل ہے‘ 2007ء میں طالبان نے…

بے چارہ گنڈا پور

علی امین گنڈا پور کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو…

پیلا رنگ

ہم کمرے میں بیس لوگ تھے اور ہم سب حالات کا رونا…

ایک ہی بار

میں اسلام آباد میں ڈی چوک سے تین کلومیٹر کے فاصلے…

شیطان کے ایجنٹ

’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)

آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…