کراچی (آن لائن)روئی کا بھاؤ فی من 14000 روپے 11 سال کے بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔ پھٹی کا ریٹ بھی 6400 روپے کی تاریخی بلندی پر جا پہنچا۔ تفصیلات کے مطابقمقامی کاٹن مارکیٹ میں گزشتہ ہفتہ کے دوران مجموعی طورپر تیزی کا رجحان رہا ٹیکسٹائل اور اسپننگ ملز کی محتاط خریداری کی وجہ سے کاروباری حجم کم
رہا۔ نئی سیزن کی روئی کی آمد دن بدن بڑھتی جارہی ہے جس کا بھاؤ شروع میں فی من 12500 روپے شروع ہوا تھا اس کے بعد سندھ کی روئی 12000 تا 12200 روپے تک فروخت ہوئی تھی لیکن جمعرات کے دن اچانک روئی کا بھاؤ 1000 روپے بڑھ کر تقریبا نئی فصل کی روئی کا کاروبار 13000 تا 13100 روپے کی بلند ترین سطح پہنچ گیا علاوہ ازیں ہفتہ کے روز بورے والا کی ایک جننگ فیکٹری نے روئی کی 200 گانٹھیں 14000 روپے کی 11 سال کی بلند ترین سطح پر فروخت کی اس کے ساتھ ساتھ پھٹی کا ریٹ بھی بڑھ کر فی 40 کلو 5800 تا 6300 روپے تک فروخت ہوئی اسی طرح بنولہ بھی فی من 2300 تا 2500 روپے تک فروخت ہوا اب تک سندھ میں نئی فصل کی روئی کی تقریبا 2000 گانٹھوں کی ڈلیوری ہوچکی ہے اس کے علاوہ ایڈوانس میں تقریبا 1000 تا 1200 گانٹھوں کے سودے ہوچکے ہیں کئی جنرز ابھی سودے باہر نہیں لاتے لیکن اندرونی سطح پر کام کررہے ہیں کیوں کہ پاکستان میں روئی کی سیزن پہلی جولائی سے شروع ہوتی ہے اور 30 جون تک ہوتی ہے اس وجہ سے کراچی کاٹن ایسوسی ایشن کی اسپاٹ ریٹ کمیٹی جولائی سے پہلے ہونے والے سودوں کو خاطر میں نہیں لاتی اور اس کا اسپاٹ ریٹ بھی نہیں لگاتی بلکہ پرانی روئی جو پڑی ہوئی ہے اس میں کوئی سودے ہوتے
ہیں تو اسے اسپاٹ ریٹ میں شامل کر دیتے ہیں۔ روئی کے بھاؤ اونچے ہونے کی وجہ سے کچھ بڑے ٹیکسٹائل گروپ ابھی سے بیرون ممالک سے روئی کے درآمدی معاہدے کررہے ہیں روئی کے نجی درآمد کنندگان کا خیال ہے کہ فی الحال نئے سیزن کیلئے روئی کی ڈھائی لاکھ گانٹھوں کے درآمدی معاہدے کرلئے گئے ہیں اور یہاں لوکل
میں زیادہ بھاؤ ہونے کی وجہ سے امپورٹ میں اضافہ ہوجائیگا۔ امپورٹ میں مقامی روئی کے بھاؤ میں 3000 روپے کا فرق آگیا ہے اس وجہ سے بڑے گروپ بیرون ممالک سے روئی کے معاہدے کرنے میں زیادہ دلچسپی دکھا رہے ہیں بہر حال چھوٹے ملز کے پاس روئی کا اسٹاک نہیں ہے وہ مارکیٹ سے روئی خریدتے رہیں گے جس کی
وجہ سے یہ لگ رہا ہے کہ فی الحال روئی کے بھاؤ میں زیادہ مندی نہیں آئے گی۔ فیڈرل ایگریکلچر کمیٹی نے نئی فصل کی روئی کا پیداواری تخمینہ ایک کروڑ پانچ لاکھ گانٹھوں کا لگایا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ 40 لاکھ ایکڑ رقبہ پنجاب میں ہے جس سے تقریبا ساٹھ لاکھ گانٹھیں پیدا ہوگی اور سندھ میں 17 لاکھ ایکڑ رقبے پر کپاس
اگانے کا تخمینہ لگایا گیا ہے لیکن یہ خطرناک صورتحال سامنے آ رہی ہے بتایا جا رہا ہے کہ کپاس کے کاشتکار فی الحال کپاس کی بوائی میں دلچسپی کم لے رہے ہیں کیوں کہ کپاس کی بوائی کے بجائے خصوصاً طور پر مکئی کی کاشت کی طرف کاشتکاروں کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے مکئی سے ایک سال میں تین فصلیں حاصل ہوتی ہے اور اس
میں کپاس کے پودے کی طرح اسپرے وغیرہ کے اخراجات بہت ہی کم ہے اس وجہ سے کاشتکار ظاہر ہے جہاں اس کو منافع ہوگا اسی طرف وہ راغب ہو گا اس وجہ سے وہ روئی کم اگاتے ہیں اور مکئی کی طرف زیادہ دھیان دے رہے ہیں کہا جاتا ہے کہ گزشتہ سالوں میں جو کاشتکار 100 ایکڑ رقبہ پر روئی لگاتے تھے اب انہوں نے تقریبا
50 ایکڑ رقبے پر کپاس لگائی ہے اور باقی کپاس کے رقبہ پر دوسری اجناس یا پھر مکئی کی کاشت کر رہے ہیں۔ اس سال اگلے سال کے لئے کپاس کی فصل کا تخمینہ کے متعلق نجی شعبہ پریشان ہے اور رپورٹ ملنے کے مطابق صوبہ پنجاب میں فیڈرل ایگریکلچر کمیٹی نے 40 ایکڑ رقبے پر کپاس کی کاشت کا تخمینہ لگایا ہے لیکن ذرائع کا
کہنا ہے کہ 7 لاکھ ایکڑ کم رقبے پر کپاس لگائی جائے گی مطلب ہے کہ 33 سے 34 لاکھ ایکڑ رقبے پر کپاس اگائی جائے گی صوبہ سندھ میں 17 لاکھ ایکڑ رقبے پر کپاس لگانے کا تخمینہ لگایا گیا ہے لیکن اس میں سے بھی ذرائع کا کہنا ہے کہ تقریبا 14 سے 15 لاکھ ایکڑ رقبے پر کپاس لگائی جائے گی اگر ایسا ہوا تو پھر خطرہ ہے کہ
روئی کی فصل گزشتہ سال سے بھی کم ہو سکتی ہے کیوں کہ خصوصی طور پر گزشتہ سال موسم نا موافق رہا علاوہ ازیں کپاس کی فصل پر سفید مکھی اور گلابی سنڈی نے بے تحاشہ حملہ کر دیا جس کی وجہ سے کپاس کی فصل 85 لاکھ گانٹھوں کے بجائے صرف 57 لاکھ گانٹھوں پر ختم ہوگئی۔ اس سال پانی کی کمی کی وجہ سے بھی
کپاس کی فصل متاثر ہوگی۔صوبہ سندھ میں پرانی روئی بہت ہی کم مقدار میں بلکہ تقریبا ختم ہی ہو چکی ہے جبکہ صوبہ پنجاب میں تقریبا 30 ہزار گانٹھوں کے لگ بھگ کا اسٹاک ہوگا اس کا جنرز ریٹ 12500 تا 13000 روپے طلب کررہے ہیں تھوڑا تھوڑا کاروبار ہورہا ہے۔کراچی کاٹن ایسوسی ایشن کی اسپاٹ ریٹ کمیٹی نے اسپاٹ ریٹ فی من 12300 روپے کے بھاؤ پر مستحکم رکھا۔کراچی کاٹن بروکرزفورم کے چیئرمین نسیم عثمان
نے بتایا کہ گزشتہ ہفتہ بین الاقوامی کاٹن مارکیٹوں میں روئی کے بھاؤ میں تیزی کا رجحان رہا پچھلے سال کپاس کی کاشت کے رقبے کا رقبہ 3.821 ملین ایکڑ تھا اور یہ پچھلے تین سالوں سے مسلسل کم ہورہا ہے۔ اس سال یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ کپاس کی بوائی کا رقبہ 3.31 ملین ایکڑ رہ جائے گا، جو گذشتہ سالوں کے مقابلہ میں 13.4 فیصد کم ہے۔ تاہم، اگر اس کو تفویض کردہ ہدف کے خلاف حساب لیا جائے تو کمی زیادہ ہے۔