لاہور(نیوزڈیسک) افغانستان کے صدر اشرف غنی کی جانب سے جاری ہونے والے ایک اہم بیان میں کہا گیا ہے کہ اُنھیں مستند اطلاعات کی بنیاد پر یقین ہے کہ مُلا عمر کی موت اپریل 2013ء میں پاکستان میں ہو گئی تھی۔ بیان میں فریقین سے کہا گیا ہے کہ وہ اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے قیام امن کی کوششوں میں شامل ہو جائیں۔ اس سے قبل افغان صدر اشرف غنی کے نائب ترجمان ظفر ہاشمی نے ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ان کی حکومت مُلا عمر کی ہلاکت کی خبروں کی تصدیق کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس سے قبل افغان نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی (این ڈی ایس) نے طالبان کے امیر مُلا عمر کے انتقال کی خبروں کی تصدیق کی تھی۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق این ڈی ایس کے ترجمان عبدالحسیب صدیقی نے کہا کہ مُلا عمر کا انتقال اپریل 2013ء میں کراچی کے ایک ہسپتال میں ہوا جہاں وہ زیر علاج تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہم سرکاری طور پر اس خبر کی تصدیق کرتے ہیں کہ مُلا عمر کا انتقال ہو چکا ہے۔ خیال رہے کہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان 14 سال سے جاری جنگ کے خاتمے کیلئے مذاکرات کا دوسرا دور جمعہ 31 جولائی کو پاکستان میں ہونا ہے۔ اس اہم موقع پر مُلا عمر کی ہلاکت کی خبریں آنا اس امن مذاکرات کو سبوتاژ کر سکتی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مُلا عمر کی ہلاکت کی اطلاعات درست ثابت ہوئیں تو مری امن عمل تو متاثر ہوگا ہی اس کے ساتھ ساتھ افغانستان سمیت خطے کی سیکیورٹی صورتحال میں فوری بہتری کے امکانات بھی کم ہو جائیں گے۔ دوسری جانب امریکی نشریاتی ادارے وائس آف امریکا نے دعویٰ کیا ہے کہ افغان طالبان اور پاکستان میں افغان حکومت کے ساتھ امن مذاکرات کے قریبی ذرائع مُلا عمر کی ہلاکت کی اطلاعات کو مسترد کر رہے ہیں۔ افغان طالبان نے مُلا عمر کی ہلاکت کی خبروں کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے امیر زندہ ہیں۔ وائس آف امریکا کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کے ترجمان نے کہا ہے کہ مُلا عمر کی ہلاکت کی خبریں محض افواہیں ہیں۔ مُلا عمر زندہ ہیں اور اس وقت گوشہ نشین ہیں۔ یاد رہے کہ ماضی میں بھی مُلا عمر کی ہلاکت کی متعدد بار خبریں آ چکی ہیں۔ واضع رہے کہ 2001ء میں امریکا کے افغانستان پر حملے کے بعد سے مُلا عمر منظر عام پر نہیں آئے۔ امریکی حکام نے مُلا عمر کے سر کی قیمت ایک کروڑ ڈالر مقرر کی ہوئی ہے۔ طالبان کی جانب سے جاری ہونے والی سوانح عمری کے مطابق طالبان کے امیر مُلا عمر 1960ء میں صوبے قندھار کے ضلع خاكریز کے چاہِ ہمت نامی گاؤں میں پیدا ہوئے۔ سوویت فوجوں کے افغانستان پر حملے کے بعد مُلا عمر اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر جہادی بن گئے تھے۔ 1983ء سے 1991ء کے درمیان فوجی کارروائیوں میں روسی فوجیوں سے لڑتے ہوئے مُلا عمر چار بار زخمی ہوئے اور ان کی دائیں آنکھ بھی ضائع ہو گئی تھی۔ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد 1996ء میں مُلا عمر کو ’امیر المومنین’ کا خطاب دیا گیا تھا۔
(بشکریہ ۔دنیانیوز)
’طالبان کے امیر مُلا عمر کے انتقال کی اطلاعات مستند ہیں‘

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں