اتوار‬‮ ، 02 فروری‬‮ 2025 

حکومتی ریفرنس بے بنیاد اور عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہے،حکومت کو سپریم جوڈیشل کونسل کے بجائے کہاں جاناچاہیے تھا؟ حکومت فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ لکھنے والے جج کو ہٹانا چاہتی ہے، دھماکہ خیز دلائل

datetime 19  جون‬‮  2020
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ آف پاکستان نے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو چیلنج کرنے کے معاملے کی طویل سماعتوں کے بعد کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا ۔ جمعہ کو عدالت عظمیٰ میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی فل کورٹ نے صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائر عیسیٰ کی درخواست پر سماعت کی جسٹس عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک حکومتی وکیل فروغ نسیم

کے دلائل پر جواب الجواب دئیے۔کیس کی سماعت شروع ہوئی تو سب سے پہلے وفاقی حکومت کے وکیل فروغ نسیم نے کچھ دستاویزات جبکہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے ٹیکس ریکارڈ کی دستاویز سربمہر لفافے میں عدالت میں جمع کروائیں۔مزید یہ جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کی جانب سے بھی زرعی زمین اور پاسپورٹ کی نقول عدالت میں جمع کروائی گئیں۔اس پر سربراہ بینچ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم ابھی اس لفافے کا جائزہ نہیں لیتے اور نہ ہی اس پر کوئی آرڈر پاس کریں گے۔انہوں نے کہا کہ معزز جج (جسٹس قاضی فائز عیسیٰ) کی اہلیہ تمام دستاویز ریکارڈ پر لاچکی ہیں، آپ اس کی تصدیق کروائیں، ہم ابھی درخواست گزار کے وکیل منیر اے ملک کو سنتے ہیں۔ عدالت نے منیر اے ملک کو ہدایت کی کہ وہ اپنے دلائل کو مختصر رکھیں، جس پر وکیل جسٹس عیسیٰ نے کہا کہ ساڑھے 10 بجے تک اپنے دلائل مکمل کردوں گا۔جس پر جسٹس عمر عطا بندیال بولے کے عدالت پہلے بھی آپ کو دلائل کیلئے21 دن دے چکی ہے۔منیر اے ملک نے اپنے جواب الجواب میں کہا کہ افتخار چوہدری کیس میں سپریم جوڈیشل کونسل پر بدنیتی کے الزامات تھے،سپریم جوڈیشل کونسل نے بدنیتی پر کوئی فیصلہ نہیں دیا تھا، توقع ہے کہ مجھے جوڈیشل کونسل کی بدنیتی پر بات نہیں کرنا پڑے گی۔منیر اے ملک نے کہا کہ سمجھ نہیں آرہا حکومت کا اصل میں کیس ہے کیا، فروغ نسیم نے کہا ان کا اصل کیس وہ نہیں جو ریفرنس میں ہے،

برطانوی جج جسٹس جبرالٹر کی اہلیہ کے خط اور ان کی برطرفی کا حوالہ دیا گیا، جسٹس جبرالٹر نے خود کو اہلیہ کی مہم کے ساتھ منسلک کیا تھا۔انہوں نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کبھی اہلیہ کی جائیدادیں خود سے منسوب نہیں کیں، الیکشن اور نیب قوانین میں شوہر اہلیہ کے اثاثوں پر جوابدہ ہوتا ہے۔اپنے جواب الجواب میں منیر اے ملک نے کہا کہ فروغ نسیم نے کہا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ آنے میں دیر کر دی، بد قسمتی

سے فروغ نسیم غلط بس میں سوار ہوگئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ حکومت ایف بی آر جانے کے بجائے سپریم جوڈیشل کونسل آگئی، ایف بی آر اپنا کام کرے ہم نے کبھی رکاوٹ نہیں ڈالی۔منیر اے ملک نے کاہ کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی اور عدلیہ کی عزت کی خاطر ریفرنس چیلنج کیا،چاہتے ہیں کہ عدلیہ جسٹس عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کالعدم قرار دے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے احکامات اور

شوکاز نوٹس میں فرق ہے۔سماعت کے دوران جسٹس عیسیٰ کے وکیل نے ریفرنس میں لگائے گئے جائیدادوں کے الزامات پر کہا کہ لندن کی جائیدادوں کی تلاش کے لیے سرچ انجن 192 ڈاٹ کام کا استعمال کیا گیا، اس پر سرچ کرنے کے لیے ادائیگی کرنا پڑتی ہے۔انہوں نے کہا کہ آن لائن ادائیگی کی رسید ویب سائٹ متعلقہ بندے کو ای میل کرتی ہے، ضیاالمصطفیٰ نے ہائی کمیشن کی تصدیق شدہ جائیداد کی تین نقول حاصل کیں، ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ

جن سیاسی شخصیات کی جائیدادیں سرچ کیں اس کی رسیدیں بھی ساتھ لگائی ہیں، حکومت رسیدیں دے تو سامنے آجائے گا کہ جائیدادیں کس نے سرچ کیں۔منیر اے ملک نے کہا کہ صحافی عبدالوحید ڈوگرنے ایک جائیداد کا بتایا تھا، تاہم اگر سرچ انجن پر اثاثہ جات ریکوری یونٹ (اے آر یو) نے جائیداد تلاش کیں تو رسیدیں دے دیں۔اس پر عدالتی بینچ کے رکن جسٹس فیصل عرب نے کاہ کے اے آر یو نے بظاہر صرف سہولت کاری کا کام کیا ہے۔سماعت

کے دوران منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ حکومت کہتی ہے کہ دھرنا کیس کے فیصلے پر ایکشن لینا ہوتا تو دونوں ججز کے خلاف لیتے لیکن حکومت صرف فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ لکھنے والے جج کو ہٹانا چاہتی ہے۔دوران سماعت منیر اے ملک نے جواب الجواب میں کہا کہ سپریم کورٹ نے پاکستان سے باہر گئے پیسے کو واپس لانے کے لیے کمیٹی بنائی تھی، مذکورہ کمیٹی نے تجویز کیا تھا کہ آمدن اور اثاثوں کے فارم میں کئی ابہام ہیں۔انہوں نے

کہا کہ یہ الزام عائد کیا گیا کہ جسٹس عیسیٰ نے جان بوجھ کر جائیدادیں چھپائیں جبکہ عدالتی کمیٹی کہتی ہے کہ غیر ملکی اثاثے ظاہر کرنے سے متعلق قانون میں بھی ابہام ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل کی بات پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کا مؤقف تھا کہ ریفرنس سے پہلے جج کی اہلیہ سے دستاویز لی جائیں، گزشتہ روز کی سماعت کے بعد آپ کے مؤقف کو تقویت ملتی ہے۔منیر اے ملک نے کہا کہ کیا ہم ایسا قانون چاہتے ہیں کہ ایک

ادارہ دوسرے کی جاسوسی کرے؟ جس پر جسٹس یحییٰ آفریدی کا کہنا تھا کہ جج کے بنیادی حقوق زیادہ اہم ہیں، یا ان کا لیا گیا حلف؟ اس پر منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ عدالت درخواست کو انفرادی شخص کے حقوق کی پٹیشن کے طور پر نہ لے۔اس پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ جسٹس فائز عیسی گزشتہ دنوں سپریم کورٹ آئے تھے، کیا جج نے بنیادی حق استعمال کرکے حلف کی خلاف ورزی نہیں کی، کیا اس طرح جسٹس عیسیٰ کا عدالت آنا ضابطہ

اخلاق کے منافی نہیں۔جس کے جواب میں منیر اے ملک نے کہا کہ اس بات کا انحصار اس پر ہے کہ جج اپنی ذات کے لیے آئے یا یا عدلیہ کیلئے آئے تھے، آج قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر ہے تو کل نجانے کس کے خلاف ہو۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک کا جواب الجواب پورا ہوگیا۔جسٹس عیسیٰ کے وکیل کے جواب الجواب کے بعد سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل حامد خان نے دلائل دینا شروع کیے اور کہا کہ اسلام

ہر مرد اور عورت کو جائیداد رکھنے کا حق دیتا ہے۔اس موقع پر حامد خان نے قرآن پاک کی سورۃ النسا کا بھی حوالہ دیا۔سماعت کے دوران سندھ بار کونسل کے وکیل رضا ربانی نے بھی دلائل دیے اور کہا کہ قواعد میں جن ایجنسیوں کا ذکر ہے وہ پہلے سے قائم شدہ ہیں، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ جتنی بھی ایجنسیاں موجود ہیں ان کو قانون کی سپورٹ بھی حاصل ہے، تاہم اس کے جواب میں رضا ربانی نے کہا کہ اے آر یو کو

لامحدود اختیارات دیئے گئے۔رضا ربانی کا کہنا تھا کہ نوٹیفیکیشن کے مطابق اے آر یو کو کابینہ کے فیصلے کا تحفظ حاصل ہے، اے آر یو یونٹ کے لیے قانون سازی نہیں کی گئی۔انہوں نے کہا کہ تاثر دیا گیا کہ آے ار یو قانونی فورس ہے، حکومت کے مطابق وزیر اعظم ادارہ بنا سکتے ہیں تاہم وزیراعظم وزارت یا ڈویژن بنا سکتے ہیں۔کے پی بار کونسل کے وکیل افتخار گیلانی نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ کے پی کے کے بیس ہزار وکلا کی نمائندگی

کررہا ہوں۔ افتخار گیلانی نے کہاکہ اس مقدمے میں انتیس درخواستیں مختلف بار کونسل اور بار ایسو سی ایشنز نے دائر کی ہیں۔ افتخار گیلانی نے کہاہک یہ درخواست گزار جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے رشتہ دار نہیں،یہ درخواست گزار عدالتی نظام کا حصہ ہیں۔ افتخار گیلانی نے کہاکہ حکومتی ریفرنس بے بنیاد اور عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہے،عدالت سے درخواست ہے کہ آئین کا تحفظ کریں۔ افتخارگیلانی نے کہاکہ ملک کی وکلا برادری عدالت عظمی

کے سامنے کھڑی ہے،آئین کے تحفظ اور بحالی کے لئے آمروں کے دور میں جیل جانا پڑا۔ افتخارگیلانی نے کہاکہ یہ برابری کا مقدمہ بھی ہے۔ افتخار گیلانی نے کہاکہ ہماری بہن اور بیٹی کو عدالت آنا پڑا۔ افتخار گیلانی نے کہاکہ انہیں بلایا نہیں گیا وہ خود اپنا موقف دینے آئیں،بار کونسل یا بار ایسو سی ایشن کا کوئی زاتی مفاد نہیں۔ افتخار گیلانی نے کہاکہ وکلا تنظیموں کا مفاد آئین کا تحفظ اور عدلیہ کی آزادی ہے،یہ بھول جائیں کہ یہ کسی جج کا مقدمہ ہے۔

جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہاکہ سوال یہ ہے کہ ریفرنس مکمل خارج کردیں۔ انہوںنے کہاکہ ھمارے لئے یہ بڑا اھم معاملہ ہے،بار کونسل اور بار ایسو سی ایشنز کا عدلیہ پر مکمل اعتماد ہے ہم اللہ کے سامنے جوابدہ ہیں،ھم آئین اور قانون کے پابند ہیں،انشاء اللہ اپنا کام آئین اور قانون کے مطابق کرینگے،ہمیں مشاورت کے لئے وقت چاہیئے ھوگا۔بعد ازاں بار کونسل کے وکلا کے بھی دلائل مکمل ہوگئے جس کے بعد عدالت میں کیس کی سماعت مکمل ہوگئی۔ساتھ ہی سپریم کورٹ نے سماعت مکمل ہونے کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔

موضوعات:



کالم



تیسرے درویش کا قصہ


تیسرا درویش سیدھا ہوا‘ کھنگار کر گلا صاف کیا…

دجال آ چکا ہے

نیولی چیمبرلین (Neville Chamberlain) سرونسٹن چرچل سے قبل…

ایک ہی راستہ بچا ہے

جنرل احسان الحق 2003ء میں ڈی جی آئی ایس آئی تھے‘…

دوسرے درویش کا قصہ

دوسرا درویش سیدھا ہوا‘ کمرے میں موجود لوگوں…

اسی طرح

بھارت میں من موہن سنگھ کو حادثاتی وزیراعظم کہا…

ریکوڈک میں ایک دن

بلوچی زبان میں ریک ریتلی مٹی کو کہتے ہیں اور ڈک…

خود کو کبھی سیلف میڈنہ کہیں

’’اس کی وجہ تکبر ہے‘ ہر کام یاب انسان اپنی کام…

20 جنوری کے بعد

کل صاحب کے ساتھ طویل عرصے بعد ملاقات ہوئی‘ صاحب…

افغانستان کے حالات

آپ اگر ہزار سال پیچھے چلے جائیں تو سنٹرل ایشیا…

پہلے درویش کا قصہ

پہلا درویش سیدھا ہوا اور بولا ’’میں دفتر میں…

آپ افغانوں کو خرید نہیں سکتے

پاکستان نے یوسف رضا گیلانی اور جنرل اشفاق پرویز…